امریکہ، پاکستان اور بھارت کو مجبور نہیں کرسکتا، اوباما
7 نومبر 2010بھارت میں موجود باراک اوباما نے دورے کے دوسرے دن ممبئی کے ایک کالج میں نوجوانوں سے خطاب میں کہا کہ تیزی سے ترقی کرتے بھارت کو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلق سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ ’’مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان سے جس ملک کا سب سے زیادہ مفاد جڑا ہوا ہے وہ بھارت ہے، اگر پاکستان مستحکم اور خوشحال ہو تو بھارت کے لئے بہترین ہے۔‘‘
امریکی صدر نے جنوبی ایشیاء کے ان روایتی حریف ممالک کے مابین مذاکراتی کوششوں کو بھی سراہا۔ ’’میری خواہش ہے کہ وقت کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین اعتماد بڑھے اور مذاکراتی عمل پہلے کم متنازعہ مسائل سے شروع کر کے بعد میں زیادہ متنازعہ مسائل کو چھیڑا جائے۔" اوباما نے امید ظاہر کی کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے گا کہ بھارت اور پاکستان پرامن طور پر ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔
1947ء میں برطانوی سلطنت سے آزادی پانے کے بعد پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے تین بار جنگ کرچکے ہیں۔ دو سال قبل ممبئی میں خونریز دہشت گردانہ کارروائی میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے ملوث ہونے کے شبے کے بعد سے جامع امن مذاکرات سلسلہ منقطع کیا گیا تھا۔
بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور چند دیگر جماعتوں کو اوباما کے پہلے خطاب سے شکایت رہی جس میں اوباما نے، بقول ان کے پاکستان کے خلاف زیادہ سخت مؤقف اختیار نہیں کیا۔ واضح رہے کہ اوباما کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کی رفتار سست ہے تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستانی حکومت جانتی ہے کہ اسے بھی اب اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔
دریں اثنا گزشتہ روز اوباما نے بھارت میں دس ارب ڈالر مالیت کے تجارتی معاہدے طے پانے کا بھی اعلان کیا۔ طے پانے والے معاہدوں میں بھارت کو بوئنگ طیاروں کی فراہمی، خلائی سائنس اور دفاعی تحقیق کے شعبوں سے متعلق سمجھوتے شامل ہیں۔ ممبئی میں دونوں ممالک کی کاروباری شخصیات سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اقتصادی تعلقات کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اوباما اپنے ساتھ ریکارڈ ڈھائی سو افراد کا تجارتی وفد بھارت لائے ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : افسراعوان