Obama Rede UN
22 ستمبر 2011جمعہ 23 ستمبر اقوام متحدہ کے لیے ایک بہت ہی اہم دن ہو گا۔ اس روز فلسطینی صدر محمود عباس اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کی درخواست دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ نے سلامتی کونسل میں اس درخواست کے خلاف ویٹوکا حق استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما فلسطینیوں کے اپنی ایک الگ ریاست کے حق کو تسلیم توکرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست محض اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہی کے نتیجے میں قائم ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں۔ انہوں نےجنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جنگ و جدل سے پاک دنیا کا تصور پیش کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ عرب دنیا میں آنے والے انقلاب کی وجہ سے اب اُن ممالک میں بھی جمہوری اقدار کے فروغ کی بات ہو رہی ہے، جن میں چند ماہ پہلے تک یہ موضوع شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا۔کرسٹینا بیرگمن کے بقول یہ سب کچھ امریکی تعاون کے بغیر ہوا۔ امریکی صدر نے مصر اور شام میں چلنے والے تحریکوں کی حمایت کرنے میں کافی دیر لگائی تھی۔ امریکی صدر کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دو برس قبل کے اور اس سال کے خطاب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت باراک اوباما جب خطاب کرنے پہنچے تھے تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ لیکن اس سال ہال میں قدرے خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
بیرگمن کے بقول اس کی سب سے بڑی وجہ مشرق وسطٰی تنازعہ ہے۔ گزشتہ برس اوباما نے اپنے خطاب میں علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو مرکزی اہمیت دی تھی۔ انہوں نے فلسطینیوں کو یہ امید دلائی تھی کہ وہ بھی اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اس وقت پس پردہ یہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ کس طرح فلسطینی انتظامیہ کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت اور تسلیم کیے جانے کی درخواست دینے سے روکا جائے۔ اوباما نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل میں اس درخواست کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کریں گے۔
امریکی صدر سے اس دوران کئی غلطیاں بھی سر زد ہوئی ہیں۔ انہوں نے ماہرین سے مشورہ کیے بغیر اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ پھر انہیں اپنا یہ بیان واپس لینا پڑ گیا۔ دوسری جانب فلسطینیوں میں انہوں نے خودمختاری کی سوچ کو اجاگر کر دیا۔ یہاں بھی انہیں اپنےکہے سے پچھے ہٹنا پڑا۔ اس وجہ سے دونوں اطراف اوباما کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گئی۔ کرسٹینا بیرگمن کے بقول موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ تنازعے میں امریکہ کے کردار کو جو مرکزی اہمیت حاصل ہوا کرتی تھی، وہ اب نہیں ہے۔
تحریر: کرسٹینا بیرگمن / عدنان اسحاق
ادارت: حماد کیانی