امریکہ چین: کیا ٹرمپ دور کے اضافی ٹیکس ختم ہوں گے؟
6 جولائی 2022منگل کے روز وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اب اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بعض چینی درآمدات پر ٹرمپ دور میں جو اضافی محصولات عائد کی گئی تھیں، ان کو ختم کر دیا جائے یا نہیں۔
چار برس قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر اضافی محصولات سے متعلق اپنا پہلا حکم نافذ کیا تھا، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر امریکہ کو تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کا اضافی ٹیکس ملنے لگا تھا۔
دس ارب ڈالر تک کے ٹیرف کو برقرار رکھنے کی درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ چھ جولائی بدھ کے روز ہی ختم ہو رہی ہے، جب کہ ایک اور دیگر اضافی ٹیکس کی میعاد آئندہ 22 اگست کو ختم ہونے والی ہے۔ان محصولات کو خود بخود ختم ہونے سے روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
بائیڈن انتظامیہ ٹیرف پر منقسم کیوں ہے؟
پانچ جولائی منگل کے روز تک چینی سامان پر محصولات برقرار رکھنے کے لیے 400 سے زیادہ درخواستیں امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر میں جمع کرائی گئی تھیں۔ اتنی بڑی تعداد میں درخواستیں ٹیرف ہٹانے کے کسی بھی منصوبے کو پیچیدہ بنا سکتی ہیں اور اس سے اضافی ٹیکس کا تسلسل جاری بھی رہ سکتا ہے۔
ٹیرف کو برقرار رکھنے کے لیے لابنگ کرنے والی انجمنوں میں 24 مزدور یونینیں شامل ہیں اور یہ لیبر یونین بائیڈن کے لیے ایک اہم حلقے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیریئن ژاں پیئر نے کہا کہ بائیڈن کی ٹیم اب بھی اس حوالے سے مختلف حکمت عملیوں پر غور کر رہی ہے اور ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس میں بہت طرح کے مختلف عناصر ہیں، خاص طور پر پچھلی انتظامیہ نے یہ ٹیرف بہت ہی غیر منظم طریقے سے نافذ کیے تھے۔''
انہوں نے مزید کہا، ''ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر ہمارے پاس درست نقطہ نظر موجود ہونا چاہیے۔''
تاہم دوسری جانب امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی نے کہا کہ وہ اس اضافی ڈیوٹی سے ملنے والے فوائد کو ترک کرنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن امریکی محکمہ خزانہ کی سکریٹری جینٹ ایلن نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا کہ بعض محصولات سے تو، ''کوئی بھی اسٹریٹیجک مقصد حاصل نہیں ہو رہا ہے۔''
ایلن نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ ٹیرف کو از سر نو ترتیب دینے سے افراط زر کی شرحوں میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے، جو کہ فی الوقت 40 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
امریکی کا تجارتی ادارہ چار برس کی مدت مکمل ہونے کے بعد ان ٹیرف کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہے اور اسی حوالے سے یہ بحث پھر سے شروع ہوئی ہے۔
مائیکرو چپس اور کیمیکلز کے ساتھ ساتھ صارفین کے دیگر ساز و سامان حیسی چینی صنعتی پیداوار پر ٹیرف عائد کی گئی تھی۔
ٹرمپ نے بیجنگ پر امریکی املاک دانش کی مبینہ چوری اور ٹیکنالوجی کی زبردستی منتقلی کا الزام عائد کیا تھا اور انتقامی کارروائی کا دعویٰ کرتے ہوئے چینی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کر دیے تھے۔
امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات
گزشتہ پیر کی شب فون پر سکریٹری ایلن اور چینی نائب وزیر اعظم لیو ہی نے ان محصولات سے متعلق تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ایلن نے بات چیت کے دوران بیجنگ کے ''غیر منصفانہ'' تجارتی طریقوں کو بھی اجاگر کیا۔
چین کی وزارت تجارت نے اس حوالے سے کہا کہ بیجنگ نے، ''امریکہ کی طرف سے چین پر عائد اضافی محصولات اور پابندیوں کو ہٹانے اور چینی کمپنیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے جیسے مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔''
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اس ہفتے انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والی جی 20 کانفرنس میں بھی چینی وزیر خارجہ وانگ ای ملاقات کرنے والے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں بھی تجارتی ایجنڈہ کے سر فہرست رہنے کا امکان زیادہ ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)