امریکہ کی طرف سے پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی مذمت
3 دسمبر 2022یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان مخالف جنگجو عناصر افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا الزام ہے، جسے کابل میں موجود افغان طالبان کی حکومت رد کرتی ہے۔
اس حملے سے ایک دن قبل ہی اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرنس نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سفارتی عملے پر ہوئے اس طرح کے حملے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کی شفاف تحقیقات کرانا چاہییں۔
ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کر دی، دہشت گردی میں اضافےکا خدشہ
پاک افغان سرحدی کشیدگی میں کمی کے لیے مذاکرات بے نتیجہ ختم
جمعے کے دن کابل میں واقع پاکستانی سفارتخانے پر ہوئے اس حملےکے نتیجے میں ایک پاکستانی سکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہو گیا تھا۔ حکومت پاکستان کے مطابق اس حملے میں پاکستانی سفارت کار عبید الرحمان نظامانی کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم وہ محفوظ رہے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ افغانستان کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس حملے کی مکمل اور جامع تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
شہباز شریف نے کہا کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو کابل میں موجود پاکستانی سفارتی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل یہ کارروائی عبید الرحمان نظامانی پر ایک قاتلانہ حملہ تھا۔
افغان طالبان کا حال ان کے ماضی سے کتنا مختلف ہے؟
تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں متعدد پولیس اہلکار ہلاک
اس حملے سے کچھ دن قبل ہی پاکستان کی نائب وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے افغانستان کے دورے کے دوران طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں کئی اہم موضوعات پر تبادلہ خیال کیا تھا، جس میں پاکستانی طالبان کی طرف سے پاکستانی سرزمین پر ممکنہ حملوں کے خطرات پر بھی گفتگو ہوئی تھی۔
ادھر طالبان کے وزیر خارجہ متقی نے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو فون کر کے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے 'دہشت گردانہ‘ کارروائی قرار دیتے ہوئے بلاول کو یقین دلایا کہ اس حوالے سے شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔
ع ب / ص ز (نیوز ایجنسیاں)