روس سے لین دین پر بھارت کو امریکہ کی تنبیہ
31 مارچ 2022ایک اعلی امریکی عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امریکہ روس کے خلاف عائد پابندیوں کو زیادہ سختی سے نافذ کروانے کے لیے کئی اقدامات کررہا ہے۔ انہوں نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر کہا،"امریکہ کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدے بشرطیکہ وہ اسے ڈسکاونٹ پر خرید رہا ہو اور درآمدات گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہورہی ہوں۔ درآمدات میں معمولی اضافہ سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔"
امریکہ نے روس پر فی الحال جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ کسی ملک کو روس سے تیل خریدنے سے نہیں روکتیں۔ لیکن ایسے اشارے ہیں کہ امریکہ دیگر ملکوں کو پابندیوں کے دائرے میں لاسکتا ہے تاکہ روس کی مالی فائدے بند کیے جاسکیں۔
امریکی عہدیدار کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نئی دہلی کے دو روزہ دورے پر آنے والے ہیں اور امریکہ کے نائب قومی سلامتی مشیر برائے معاشیات دلیپ سنگھ بھارت کے دورے پر ہیں۔ جرمنی کے قومی سلامتی مشیر نے بدھ کے روز بھارت کا دورہ کیا تھا اور جمعرات کے روز برطانوی وزیر خارجہ دہلی پہنچ رہی ہیں۔
روسی تیل کی خریداری میں اضافہ
بھارت تیل درآمدکرنے اور استعمال کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد سے اس نے روس سے تیل کی درآمدات میں اضافہ کردیا ہے۔ 24فروری کے بعد سے بھارت نے روس سے 1.3 کروڑ بیرل تیل خریدا ہے جبکہ گزشتہ پورے سال کے دوران روس سے تیل کی درآمدات 1.6 کروڑ بیرل تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بھارت اور روس کے درمیان تیل کی خریداری کے حوالے سے ہونے والی بات چیت سے وہ واقف ہیں۔ انہوں نے کہا،"ہم بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہمارے شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ تاکہ یوکرین میں ہلاکت خیز جنگ کو جلد از جلد ختم کرانے کے لیے ایک مشترکہ اور مضبوط کارروائی کی جاسکے جس میں سخت پابندیاں عائد کرنا بھی شامل ہے۔"
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بائیڈن حکومت بھارت اور یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ یوکرین جنگ کا دنیا کے انرجی مارکیٹ پر کم سے کم اثر پڑے۔ اس کے ساتھ ہی روسی توانائی پر انحصار کو کم کرنے کے لیے بھی قدم اٹھائے جارہے ہیں۔
امریکی پابندیوں کا اثر
امریکی پابندیوں کی وجہ سے روس کی خام تیل فروخت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ دنیا میں خام تیل کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد روس میں ہوتا ہے۔پیرس میں واقع انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق پابندیاں عائد کیے جانے اور خریداروں کے ذریعے تیل خریدنے سے گریز کرنے کی وجہ سے اپریل میں روزانہ تقریباً 30لاکھ بیرل کم تیل مارکیٹ میں پہنچے گا۔
امریکی عہدیدار کے مطابق انہیں اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ بھارت روس کے ساتھ ڈالر کے بجائے روبل میں تجارت کرے بشرطیکہ لین دین میں پابندیوں کے ضابطوں پر عمل کیا جائے۔
انہوں نے کہا،"وہ جو بھی ادائیگی کریں، جو بھی کریں وہ پابندیوں کے دائرے میں ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ جب تک وہ پابندیوں پر عمل کرتے ہیں اور خریداری کی مقدار بہت زیادہ نہیں بڑھاتے ہیں تب تک ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔"
روس بھارت تعلقات
روس بھارت کو ہتھیاروں اور دیگر اسٹریٹیجک اشیاء کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ اوسطاً نو ارب ڈالر کی ہی تجارت ہوئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت اور چین کی باہمی تجارت سالانہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ بھارت روس کے ساتھ اپنے تجارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات میں کسی طرح کی کمی کرے گا۔ اس نے حال ہی میں ماسکو کے ساتھ کئی بڑے معاہدے کیے ہیں۔
لیکن روس کے حوالے سے بھارت کے موقف سے امریکہ بہت خوش نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ کواڈ ملکوں میں بھارت ہی ہے جو روس کے خلاف کارروائی میں 'تھوڑی گڑبڑی' کر رہا ہے۔
دوسری طرف بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)