1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکہ کے لیے اسرائیل کی حمایت کیا معنی رکھتی ہے؟

4 اکتوبر 2024

مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں امریکہ اسرائیل کا مستقل حامی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ ​​میں بھی واشنگٹن اسرائیل کا ساتھ دے سکتا ہے اور یہ معاملہ امریکی انتخابات کے نتائج کو متاثر کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4lQCH
گزشتہ برس اکتوبر میں جوبائیڈن کے دورہ تل ابیب کے موقع پر نیتن یاہو کے ساتھ تصویر
گزشتہ برس اکتوبر میں جوبائیڈن نے تل ابیب کا دورہ کیا تھاتصویر: Avi Ohayon/Israel Gpo/Zumapress/imago images

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''میں نے G7 ریاستوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے آہنی عزم کی تصدیق کی ہے۔‘‘

بائیڈن کی جانب سے حمایت کی آواز ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب مشرق وسطیٰ ایک ہلچل کی حالت میں ہے جس کا آغاز اس وقت ہوا جب عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس نے، جسے امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتیں دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہیں، سات اکتوبر 2023 ء کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے اور تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے جایا گیا۔ ان میں سے کچھ اب بھی غزہ میں قید ہیں۔

جوابی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا، جس کا بیان کردہ مقصد حماس کا صفایا کرنا اور اس عسکریت پسند تنظیم کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کرانا تھا۔ اس آپریشن کے آغاز سے اب تک غزہ میں 40,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت  عام شہریوں کی تھی۔

غزہ کی جنگ امریکی اسرائیلی تعلقات کا امتحان بھی

اسرائیلی فوج اور لبنان میں سرگرم حماس کے اتحادی گروپ حزب اللہ کے مابین لڑائی میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ہلاک کرنے کے بعد اسرائیل نے پیر کو لبنان کے خلاف زمینی کارروائی شروع کی تھی۔ دریں اثناء امریکی حکام اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خطے میں جنگ سے مکمل گریز کرنا چاہتے ہیں اور غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں جس کے بدلے میں حماس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے۔ لیکن منگل کو ایران نے اسرائیل پر میزائلوں کی بوچھاڑ کی جس پر اسرائیل نے کہا کہ وہ جوابی کارروائی کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کے سامنے مشرق وسطیٰ کی جنگ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے۔
مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے سبب امریکہ میں خاصی ہلچل پائی جاتی ہے۔تصویر: Jose Luis Magana/AP/picture alliance

بائیڈن اور نیتن یاہو، ایک دشوار رشتہ

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو حماس کے ساتھ جنگ ​​سے نمٹنے کے بارے میں اپنے ہی ملک کے اندر سے کچھ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے ناقدین کو تشویش ہے کہ نیتن یاہو کے سخت گیر اقدامات سے حماس کی طرف سے بقیہ یرغمالیوں کے رہا کیے جانے کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔

امریکہ نے اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی کے طور پر اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے تاکہ غزہ میں مزید امداد کی رسائی کی اجازت دی جا سکے لیکن جو بائیڈن نے بدھ کو دوبارہ تصدیق کی کہ اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی حمایت اٹل ہے۔ لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ ان دونوں ممالک کے رہنما ہمیشہ ایک دوسرے کے حامی رہتے ہیں۔

سعودی عرب اور اسرائیل ’فریم ورک ڈیل‘ کی طرف بڑھتے ہوئے، وائٹ ہاؤس

اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک میں ''اسکوکرافٹ مڈل ایسٹ سکیورٹی انیشی ایٹیو‘‘ کے ڈائریکٹر جوناتھن پینکوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر بائیڈن کے اسرائیلی ریاست کے ساتھ تعلقات کو وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ تعلقات سے الگ کر کے دیکھنا ضروری ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''بائیڈن کا نیتن یاہو کے ساتھ برسوں سے بہت ہی اتار چڑھاؤ کا رشتہ رہا ہے۔ لیکن بائیڈن کی اسرائیل اور اسرائیل کی سلامتی سے وابستگی غیر متزلزل رہی ہے۔‘‘

اسرائیل پر امریکہ کے اعتماد میں 'نمایاں حد تک کمی‘

اس کی ایک مثال اسرائیل کی طرف سے حسن نصراللہ کا قتل تھا۔ اٹلانٹک کونسل میں پینکوف کے ساتھی اور واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک ''رفیق حریری سینٹر‘‘ سے وابستہ اور مشرق وسطیٰ کے پروگراموں کے سینئر ڈائریکٹر ولیم ویکسلر کے بقول، ''بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان بہت زیادہ ذاتی اعتماد نہیں پایا جاتا۔‘‘

امریکہ اور اسرائیل مل کر خطے اور تاریخ کو بدل سکتے ہیں، نیتن یاہو

ایرو تھری ہائپر سونک اینٹی بیلیسٹک میزائل جو الاسکا میں کسی نامعلوم مقام پر نصب ہے۔
امریکہ روایتی طور پر اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔تصویر: Israeli Ministry of Defence/AFP

ویکسلر کے مطابق، ''ایک ہفتہ قبل، امریکہ اپنی تمام تر کوششیں شمال میں 21 روزہ جنگ سے متعلق بات چیت پر مرکوز کر رہا تھا۔ امریکی حکام اس بارے میں اسرائیلیوں کے ساتھ روزانہ بات چیت کر رہے تھے، لیکن جب وہ یہ گفتگو کر رہے تھے، اسرائیلی نصراللہ کو مارنے کے لیے آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، مگر اس بارے میں وہ بائیڈن انتظامیہ کو نہیں بتا رہے تھے۔ اس حالیہ تجربے سے  باہمی اعتماد میں واضح حد تک کمی آئی ہے۔‘‘

اسرائیل کی امریکی حمایت کا صدارتی الیکشن میں کملا ہیرس کے لیے ممکنہ نقصان

جہاں امریکہ کے داخلی مسائل امریکی ووٹرز کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہاں اسرائیل کے لیے امریکی حمایت آئندہ امریکی صدارتی انتخابات میں بھی واضح طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کچھ امریکی باشندے مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں امریکی کردار کے بارے میں جذباتی انداز سے سوچتے ہیں۔ اس کا اندازہ امریکہ میں ہونے والے فلسطینی مظاہروں سے ہوتا ہے۔ ان مظاہروں کی لہر گزشتہ موسم بہار میں امریکہ بھر کے کالج کیمپسوں میں دکھائی دی تھی۔

نیتن یاہو کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات

ایک اور اہم نشاندہی امریکی ریاست مشیگن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری الیکشن  سے ہوئی۔ مشیگن امریکہ کی ایک بڑی عرب نژاد امریکی آبادی والی ریاست ہے۔ اس ریاست میں ایک لاکھ سے زیادہ ڈیموکریٹس نے  پارٹی کے پرائمری الیکشن میں ''اس وقت کے امیدوار جوبائیڈن‘‘ کو ووٹ دینے کے بجائے ''غیر پابند‘‘ آپشن کا انتخاب کیا۔ یاد رہے کہ 2020 ء کے الیکشن میں بائیڈن کو مشیگن میں محض 154 ہزار ووٹ سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک میں ''اسکوکرافٹ مڈل ایسٹ سکیورٹی انیشی ایٹیو‘‘ کے ڈائریکٹر جوناتھن پینکوف کی نگاہ میں اس امر کے امکانات قوی ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں امریکی رائے دہندگان کملا ہیرس کی اسرائیل کے لیے حمایت کے سبب ان کی جماعت کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دیں۔

کیا کملا ہیرس مسلم ووٹرز کے دل جیت پائیں گی؟

کارلا بلائیکر (ک م/ا ب ا، م م)

/dw/a-70397726