امریکی انتباہ کے بعد صوبے حلب میں فائر بندی کا روسی اعلان
16 جون 2016فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق ایک زمانے میں شام کے کاروباری مرکز کی حیثیت رکھنے والا شمالی صوبہ حلب اُس ہولناک جنگ میں تباہ و برباد ہو چکا ہے، جس میں اب تک دو لاکھ اَسّی ہزار سے زیادہ انسان مارے جا چکے ہیں۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق منگل سے حلب سٹی کے جنوب کی جانب حکومتی دستوں، باغیوں اور ’جہادیوں‘ کے درمیان جاری تازہ لڑائی میں کم از کم ستتر جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ حلب سٹی 2012ء سے لڑائی کی لپیٹ میں ہے، جب باغیوں نے اس شہر کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور ملکی دستے شہر کے مغربی حصے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ اب اس شہر میں کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں اور ہر فریق پورے شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
دفاعی لحاظ سے اہم راستوں کے درمیان پہاڑی علاقے کے کئی دیہات میں حکومت نواز جنگو، جنہیں روسی اور حکومتی فضائی حملوں کا بھی تعاون حاصل ہے، باغی گروپوں اور القاعدہ سے قربت رکھنے والی تنظیم النصرہ فرنٹ کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
روسی وزارتِ دفاع کے ایک بیان کے مطابق سولہ جون نصف شب سے اڑتالیس گھنٹے کی فائر بندی کا مقصد پُر تشدد کارروائیوں کو کم کرنا اور حالات کو مستحکم کرنا ہے۔ اس بیان میں النصرہ فرنٹ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اُس نے حلب کے کئی مضافاتی علاقوں میں راکٹ فائر کیے ہیں۔
شام میں پانچ سال سے جاری تنازعے میں بڑی عالمی طاقتیں دو مختلف فریقوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ امریکا شامی اپوزیشن کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ روس شامی صدر بشار الاسد کا ساتھ دے رہا ہے۔
بدھ کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا: ’’روس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا صبر لا محدود نہیں بلکہ اس معاملے میں درحقیقت بہت ہی محدود ہے کہ آیا اسد کو اس ساری صورتِ حال کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے یا نہیں۔‘‘ ناروے میں ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کیری نے کہا: ’’ہم اپوزیشن کے ارکان کے احتساب کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘
شام کے لیے امن مذاکرات اپریل سے تعطل کا شکار ہیں۔ کیری نے کہا کہ اگلے ایک دو ہفتوں میں شام بھر میں فائر بندی کروانے کے ایک نئے سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسا ہو گیا تو متاثرہ علاقوں تک انسانی امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ امن عمل کا سلسلہ بھی بحال ہو سکے گا۔