دمشق کے قریب دوہرے بم دھماکے، متعدد ہلاک
11 جون 2016خبر رساں ادارے اے پی نے شامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ گیارہ جون بروز ہفتہ دمشق کے نواح میں واقع ایک شیعہ اکثریتی علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق سیدہ زینب نامی علاقے میں دو خود کش حملے کیے گئے۔
دوسری طرف داعش کی نیوز ایجنسی عماق نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے تین حملے کیے۔ عماق کے مطابق دو حملے خود کش تھے جبکہ تیسرا ایک کار بم دھماکا تھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان حملوں کی وجہ سے خواتین اور بچے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بھی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے کنٹرول والے اس علاقے میں جہادیوں کے یہ تازہ حملے تھے۔ اس سے قبل بھی اسی علاقے میں جنگجو دہشت گردانہ کارروائیاں سر انجام دے چکے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مرکزی دمشق سے دس کلو میٹر دور واقع سیدہ زینب نامی علاقے میں پیغمبر اسلام کی نواسی حضرت زینب کا مزار بھی واقع ہے۔ اسی لیے بالخصوص شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس مقام سے ایک خاص عقیدت رکھتے ہیں۔
یہ تازہ حملے ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں، جب امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں نے منبج میں جہادیوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق منبج کی لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افراد وہاں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
عرب اور کرد فائٹرز پر مشتمل فورس امریکی تعاون سے منبج کی طرف کامیاب پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس فورس کے مطابق شہر کے قریب پہنچنے کے بعد ان کی فائٹرز انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ لاپرواہی سے شہری ہلاکتوں کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
شامی صوبے حلب میں منبج کو داعش کا سب سے بڑا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ علاقہ حکمت عملی کے حوالے سے بھی انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ الرقہ اور ترکی کو ملاتا ہے۔ اس مقام کو جہادیوں کی اہم سپلائی لائن بھی قرار دیا جاتا ہے۔