1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوئے، سوڈانی جنرل

27 اکتوبر 2020

اسرائیل کے ساتھ افریقی ملک سوڈان نے دو طرفہ تعلقات استوار کرنے کی ڈیل طے کر لی ہے۔ اس تناظر میں اعلیٰ ترین فوجی جنرل کا کہنا ہے کہ وہ امریکی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوئے۔

https://p.dw.com/p/3kVAl
Bildkombo Benjamin Netanyahu, Abdel Fattah al-Burhan, Donald Trump

سوڈانی فوج کے اعلیٰ ترین جنرل عبد الفتاح عبد الرحمٰن البرہان نے پیر چھبیس اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے خرطوم حکومت کو امریکی بلیک میلنگ کا سامنا قطعاً نہیں رہا۔ سوڈانی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر بعض عرب اور فلسطینی ناقدین کا سامنا ہے۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر کے 'پین عرب مفادات‘ اور فلسطینیوں کی جد و جہد کو نقصان پہنچایا ہے۔

امریکی بلیک میلنگ کی تردید

اُدھر واشنگٹن سے بھی ٹرمپ انتظامیہ نے سوڈانی اور اسرائیلی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ اسی اعلان میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت نے سوڈان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی اقوام میں سے خارج کر دیا ہے۔ سابق مطلق العنان حکمران عمر البشیر کی حکومت کے سن 2019 میں خاتمے کے بعد سے نئی حکومت امریکا سے مطالبہ کر رہی تھی کہ اسے اس 'بلیک لسٹ‘ سے خارج کیا جائے۔

سوڈانی فوج کے اعلیٰ ترین جنرل عبد الفتاح عبد الرحمٰن البرہان نے ریاستی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنے میں کسی قسم کی بلیک میلنگ شامل نہیں ہے۔ اس کا انہوں نے اعتراف کیا کہ تعلقات کی بحالی میں امریکی کرادر یقینی طور پر 'عمل انگیز‘ کا تھا۔ اس تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ پچیس اکتوبر بروز اتوار سوڈانی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ رواں برس اگست میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خرطوم کے دورے پر ایسا عندیہ دیا تھا کہ دہشت گردی کی لسٹ سے اخراج کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہو گا۔

Fahnen Israel - Sudan NAH
اسرائیل اور سوڈان کا جھنڈا۔تصویر: Jack Guez/AFP/Getty Images

 

اسرائیلی تعلقات اور فلسطینی صورت حال

جنرل عبد الفتاح عبد الرحمٰن البرہان نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا سوڈان کے مفاد میں ہے۔ جنرل کے مطابق وہ فلسطینی ریاست کے حق میں ہیں اور اس کی سرحد میں سن 1967 کے مقبوضہ علاقے بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی صورت حال کا مکمل بوجھ کسی بھی صورت میں اکیلے سوڈان پر ڈالنا درست نہیں ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے اُن افواہوں کی تردید کی کہ انہیں متحدہ عرب امارات کے دباؤ کا سامنا تھا۔

سوڈانی جنرل نے یہ بھی کہا کہ ملک تنہائی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ سخت پابندیوں کا بھی سامنا کر رہا تھا جو ملک اور عوام کے لیے شدید مشکلات کا باعث تھا۔ ان کے خیال میں دہشت گردی کی لسٹ سے خارج ہونے کے بعد ان کا ملک پھر سے بین الاقوامی کمیونٹی کا حصہ بن گیا ہے۔ جنرل البرہان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ان کے ملک کو اقتصادی فوائد ملنے کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی بھی حاصل ہو سکے گی۔

سوڈان کی پریشانیوں کے خاتمے کا امکان

اس دوران اسرائیل نے پانچ ملین ڈالر کی گندم سوڈان کو فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ اعلان سوڈان کو اجناس کی کمیابی کے تناظر میں ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سوڈان اور اسرائیل اگلے دنوں میں مختلف امور میں تعاون پیدا کرنے کی بات چیت شروع کرنے والے ہیں۔ ان میں زراعت، تجارت، اقتصادیات، شہری ہوابازی، مہاجرت سمیت کئی معاملات شامل ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ امریکی بلیک لسٹ سے خارج ہونے کے بعد سوڈان کے لیے بین الاقوامی امداد کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔ اس کے علاوہ تین اکتوبر کے داخلی امن برائے سوڈان کے معاہدے پر پوری طرح عمل درآمد ہو سکے گا۔ سوڈانی فوج کے اعلیٰ ترین جنرل نے یہ بھی کہا کہ داخلی امن ڈیل سے سوڈان میں سرگرم کئی باغی گروپوں کو امن و استحکام کے دھارے میں لانا ممکن ہو گا۔

ع ح، ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)


 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں