امریکی فوج کے مسلمان سپاہی وفاداری کا ثبوت دیں، لیکن کیوں؟
3 اگست 2016اکتوبر سن 2000ء میں امریکی بحریہ میں شمولیت اختیار کرنے والے اور اُس سے چھ برس پہلے پاکستان سے امریکا پہنچنے والے منصور شمس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک روز اُسے نئے وطن کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دینا ہو گا۔ نماز روزے کا پابند شمس اس لیے بھی امریکی فوج میں شامل ہوا تھا کہ وہ اپنے نئے وطن امریکا کے دفاع کو اپنی ذمے داری سمجھتا تھا۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں شمس نے کہا: ’’میرا مذہب مجھے اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مَیں اُس ملک کا وفادار رہوں، جہاں مَیں زندگی گزار رہا ہوں۔ مغربی دنیا میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے ملک کے وفادار نہیں ہوتے لیکن ایسی کوئی سوچ میرے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آئی۔‘‘
لیکن پھر گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ شمس کے مطابق مسلمان امریکی شہریوں بالخصوص امریکی فوج میں خدمات انجام دینے والے بعض مسلمانوں پر وطن سے اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا چلا گیا:’’اب تو حالات اور بھی خراب ہو چکے ہیں۔‘‘
ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسلام مخالف بیان بازی کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف بد اعتمادی کو ہوا دے رہے ہیں، جس کا نقطہٴ عروج ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں پاکستانی نژاد خضر اور غزالہ خان کی شرکت پر ٹرمپ کی تنقید تھی۔ ان دونوں کا بیٹا امریکی فوج میں کیپٹن تھا اور 2004ء میں عراق میں ڈیوٹی انجام دیتا ہوا مارا گیا تھا۔
ٹرمپ کی اس تنقید نے ڈیموکریٹس کے ساتھ ساتھ ری پبلکنز کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اگرچہ امریکی فوج میں مسلمان سپاہی پہلی عالمی جنگ کے دور سے خدمات انجام دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن بعض ذرائع کے مطابق اب یہ فوج مسلمانوں کو بھرتی کرنے سے نسبتاً گریز کرنے لگی ہے۔
امریکی فوج کے 2.2 ملین اہل کاروں میں سے صرف پانچ ہزار آٹھ سو چھیانوے خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔ عربی، پشتو یا فارسی جاننے والے سپاہی امریکی فوج کے لیے بہت کارآمد بھی ثابت ہوئے ہیں لیکن امریکا میں کھلے عام اُن کی خدمات کا اعتراف کم ہی کیا جاتا ہے۔
اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے شمس نے MuslimMarine.org کے نام سے ایک ویب سائٹ بنائی ہے تاکہ امریکی عوام کو اسلام کی ایک مثبت تصویر دکھاتے ہوئے یہ بتایا جا سکے کہ گندمی رنگ اور سیاہ بالوں والا ہر شخص دہشت گرد نہیں ہوتا:’’وہ ایک فوجی بھی ہو سکتا ہے، جو تمہارے ملک کے لیے اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔‘‘۔
تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے متعدد بار امریکی مسلمانوں اور امریکی فوجی میں مسلمان سپاہیوں کی خدمات کا کھلے عام اور سرکاری سطح پر اعتراف کیا ہے۔ امریکا میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو کسی بھی قوم و مذہب کے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے مخالف ہیں اور ان کی بات سنی بھی جاتی ہے۔