امریکی فوج کے نامزد سربراہ کا ایران کو انتباہ
27 جولائی 2011جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اپنی تعیناتی کی توثیق کے لیے ہونے والی پیشی کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کو بدلتے عالمی حالات اور بجٹ میں ہونے والی کمی کے باوجود بہترین انداز سے چلانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے اس موقع یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے احکامات پر عملدرآمد کریں گے اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ برقرار رکھیں گے۔
امریکی کانگریس کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں امریکی افواج کے نئے چیفس آف اسٹاف نے ایران کی مذہبی حکومت کو ’غیر مستحکم کرنے والی قوت‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’’ اپنی جوہری سرگرمیوں اور جنوبی عراق میں اپنی درپردہ کارروائیوں کے تناظر میں اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ایران ان حوالوں سے امریکی عزم کا غلط اندازہ لگائے گا۔‘‘
جنرل ڈیمپسی کے مطابق ایران ممکنہ طور پر عراق میں ’بیروت کی طرح کی تحریک‘ کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا اشارہ 1983ء میں لبنانی دارالحکومت بیروت میں امریکی اور فرانسیسی فوجوں کے خلاف ہلاکت خیز حملوں کی طرف تھا، جن کی ذمہ داری ایران سے تعلق رکھنے والے اسلامی عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔
جنرل ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ ایران شاید یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس نے ہمیں عراق سے نکال دیا ہے۔ ڈیمپسی کے بقول:’’ جب تک ہمارے فوجی وہاں پر ہیں، ہم ان کے تحفظ کے لیے وہ سب کچھ کریں گے جو ہمیں کرنا چاہیے، اور میں یہ بات ہر ایک پر واضح کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ امریکہ عراق میں موجود اپنے باقی ماندہ 47 ہزار فوجیوں کو رواں برس کے اختتام تک عراق سے واپس نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایڈمرل مائیک مولن کے جانشین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس موقع پر کہا ہے کہ امریکی فوج کی طرف سے پاکستان پر دباؤ آئندہ بھی برقرار رکھا جائے گا۔ سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے پیشی کے دوران انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا چیئر مین بننے کے بعد ان کی ترجیح ہو گی کہ پاکستان پر عسکریت پسندوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ مؤثر کارروائیوں کے لیے دباؤ جاری رکھا جائے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: کِشور مُصطفیٰ