امریکی فوجی میننگ پر جاسوسی کا الزام ثابت ہوگیا
31 جولائی 2013منگل کی شام امریکی ریاست میری لینڈ کی ایک عدالت نے اس 25 سالہ فوجی اہلکار کے خلاف نو منٹ تک اپنا ایسا فیصلہ سنایا، جس کے نتیجے میں اسے 136 برس تک کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے سے پہلے میری لینڈ کے فورٹ مِیڈ فوجی اڈے پر بریڈلی میننگ کے کورٹ مارشل کی کارروائی قریب دو ماہ تک جاری رہی۔ یہ امریکی اہلکار تین برس سے بھی زائد عرصہ قبل عراقی دارالحکومت بغداد کے قریب جاسوسی سے متعلقہ امور کے مبصر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب اسے حراست میں لیا گیا تھا۔
بریڈلی میننگ نے رواں برس اعتراف کر لیا تھا کہ اس نے سات لاکھ سے زائد دستاویزات وکی لیکس کو فراہم کی تھیں۔ اس کے بعد بریڈلی میننگ کا جرم ثابت کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا اور اب بالآخر اس پر ان تمام 22 میں سے 20 الزامات ثابت ہوگئے، جن کی بنیاد پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ اسے کورٹ مارشل کے سب سے سنگین اور ’دشمن کی مدد‘ کے الزام سے بری کر دیا گیا۔
حکومتی وکلاء کا مؤقف رہا ہے کہ بریڈلی میننگ کی طرف سے وکی لیکس کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے پیچھے ایک منفی مقصد کارفرما رہا تھا۔ وکی لیکس نامی ویب سائٹ ان سفارتی مراسلوں کو دنیا بھر میں جاری کر کے امریکا کے لیے شدید شرمندگی کا باعث بنی تھی۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ بریڈلی میننگ کا یہ عمل براہ راست اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی معاونت کا سبب بنا۔ جج کرنل ڈینس لینڈ نے البتہ اس دعوے سے متاثر ہوئے بغیر اپنا فیصلہ سنایا۔ انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے بریڈلی میننگ کو مخاطب کرتے ہوئےکہا، ’’پہلے الزام میں عدالت تمہیں بے گناہ قرار دیتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ دشمن کی معاونت سے متعلق یہ الزام ثابت ہو جانے کے بعد میننگ کو موت کی سزا بھی ہو سکتی تھی۔
اس امریکی فوجی اہلکار نے مقدمے کے آغاز کے بعد سے خاصی شہرت حاصل کر لی ہے۔ فورٹ مِیڈ کی فوجی عدالت کے اندر اور باہر اس کے کئی حامی موجود تھے۔ فیصلہ سنائے جانے سے قبل کرنل ڈینس لینڈ نے وہاں موجود افراد پر واضح کر دیا تھا کہ جذباتی ردعمل کی صورت میں متعلقہ افراد کو کمرہء عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔
جاسوسی سے متعلق قانون کے تحت بریڈلی میننگ کے خلاف جو الزامات ثابت ہو گئے، ان میں امریکی پراپرٹی کی چوری اور خفیہ ریکارڈز سے متعلق کمپیوٹر فراڈ کی دفعات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ بریڈلی ہی وہ شخص ہے جس نے 2007ء کے دوران بغداد میں امریکی ہیلی کاپٹر کی فائرنگ سے 12 شہریوں کی ہلاکت کی ویڈیو عام کی تھی۔
اس پر مئی 2009ء میں افغانستان کے غرنئی نامی علاقے میں درجنوں نہتے شہریوں کی ہلاکت سے متعلق ویڈیو عام کرنے کا الزام ثابت نہ ہو سکا۔ اس واقعے میں افغان حکام کے بقول 92 بچوں سمیت 140 شہری مارے گئے تھے۔ امریکا کا موقف ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ایک سو سے کم تھی اور ان میں سے 65 عسکریت پسند تھے۔