انا کی بھوک ہڑتال کا دسواں دن، حکومت پریشان
25 اگست 2011بھارت میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مہم شروع کرنے والے 74سالہ بزرگ سماجی کارکن انا ہزارے کی بھوک ہڑتال دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ ڈاکٹروں نے ان کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے تاہم ہزارے اپنے مؤقف پر برقرار ہیں کہ جب تک حکومت ان کی تجاویز کو منظور نہیں کرتی وہ اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔
انا ہزارے کی بھوک ہڑتال سے پیدا ہونی والی صورتحال کے بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کل جماعتی اجلاس بھی طلب کیا۔ جس میں حکمران جماعت کانگریس نے کوشش کی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر اس مسئلے کو مناسب طریقے سے حل کیا جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس کے دوران بھی سیاسی اختلافات نمایاں رہے تاہم تمام سیاسی پارٹیوں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ انا ہزارے کو اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دینی چاہیے۔
کل جماعتی اجلاس کے بعد کیمونسٹ پارٹی کے رہنما سیتا رام یچوری نے کہا،’ ہم نے مشترکہ طور پر انا ہزارے سے درخواست کی ہے کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کر دیں‘۔ دوسری طرف انا ہزارے کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جب تک حکومت ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے انا ہزارے کی طرف سے تجویز کردہ مسودہء قانون منظور نہیں کرتی، ہزارے بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والا مجوزہ قانون خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور اس سے ملک میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی ختم نہیں ہو سکتی۔
بھارتی وزیر خزانہ پرنب مکھر جی نے کہا ہے کہ کل جماعتی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ انا ہزارے کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو قانون سازی کے دوران ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔
ادھر نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں اپنے سیکنڑوں حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انا ہزارے نے کہا ہے کہ اگرچہ 9 دن کی بھوک ہڑتال سے ان کا چھ کلو وزن کم ہو گیا ہے تاہم وہ اپنے حامیوں کو دیکھ کر ایک نئی توانائی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس احتجاج کو آزادی کی دوسری جنگ قرار دیا ہے۔ بھارت میں عوامی سطح پر انا ہزارے کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو حکومت کے لیے مزید دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین