انتخابی شکایات کے کمیشن کو ’افغانائز‘ کرنے کی کوشش
24 فروری 2010الیکٹورل کمپلینٹس کمیشن‘ نامی اس ادارے کے زیادہ اختیارات صدر کرزئی نے اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد مغربی ممالک، امدادی اداروں اور افغان حکومت کے مابین اختلافات پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ امدادی اداروں نے رواں سال اٹھارہ ستمبرکو افغان پارلیمانی انتخابات کے لئے امداد کی فراہمی انتخابی عمل سے جڑی اصلاحات سے مشروط کررکھی ہے۔
امداد فراہم کرنے والے ممالک نے صدارتی انتخابات کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے افرادی قوت اور مادی وسائل جبکہ اخراجات کے لئے دو سو تیس ملین ڈالر فراہم کئے تھے۔ انتخابی شکایات سننے والے کمیشن کے پانچ میں سے تین ارکان کو اقوام متحدہ کی جانب سے منتخب کیا جاتاہے۔ اقوام متحدہ نے پارلیمانی انتخابات کے لئے بھی لاکھوں ملین ڈالر مختص کررکھے ہیں۔ عالمی ادرے کے اعلیٰ عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ کابل حکومت کو وہ یہ امداد، انتخابی اصلاحات کے نفاذ تک فراہم نہیں کریں گے۔
صدر کرزئی کے ایک ترجمان سیامک ہیراوی نے کابل میں صحافیوں کو حالیہ فیصلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد، ادارے کو ’افغانائز‘ کرنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان کابینہ نے یہ تجویز صدر حامد کرزئی کو دس روز قبل پیش کی تھی جس کی صدر کرزئی نے تائید کردی۔
ماہرین کےمطابق اس ادارے کے اختیارات اب صدر کےپاس منتقل ہونے کے باعث اب ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کی شفافیت مشکوک ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ صدارتی انتخابات میں خود مختار الیکشن کمیشن نے صدر کرزئی کے حق میں ڈالے گئے ایک تہائی ووٹوں کو جعلی قرار دیا تھا جس کی وجہ سے انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد کیا گیا۔ صدر کرزئی تسلیم کرتے ہیں کہ بعض علاقوں میں معمولی دھاندلی کے واقعات ہوئے ہوں گے تاہم مغربی میڈیا نے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
دریں اثناء امریکہ نے واضح کیا ہے کہ یہ خالصتاً افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ کابل میں امریکی سفارتخانے سے جاری بیان کے مطابق کابل حکومت کے ہر اس اقدام کو سراہا جائے گا جو شفاف اورغیر جانبدار انتخابات کو یقینی بنائے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ