1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم: الیکٹیبلز پر 'نظرکرم'

15 نومبر 2023

پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ امیدواروں کی حتمی فہرست تیارہو رہی ہیں۔ اس موقع پر نواز شریف بھی "الیکٹیبلز" کو پارٹی میں شامل کرنے کی تگ ودو میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Ypv4
تصویر: Ali Kaifee/DW

مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف اس وقت کوئٹہ میں ہیں اور وہ الیکٹیبلز سے مل رہے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق نواز شریف کی کوشش ہے کہ وہ بلوچستان کے الیکٹیبلز کو نون لیگ میں شامل کر لیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ اس صورتحال کو قربانیاں دینے والے مسلم لیگی کارکن سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

الیکٹیبلز آگے ورکرز پیچھے

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی نے مزید کہا کہ ماضی میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو فائنل کرتے ہوئے ان کے کردار، ان کی نظریاتی وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کے انتخابی حلقوں میں عوامی خدمت کے حوالے سے کارکردگی کو بھی سامنے رکھا جاتا تھا لیکن آج کل زیادہ تر صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار اپنے حلقے میں کتنے اثرورسوخ کا مالک ہے اور اس کے جیتنے کے امکانات کتنے زیادہ ہیں،'' اس صورتحال نے جمہوریت کو کمزور کر دیا ہے اور پورا انتخابی عمل اب الیکٹیبلز کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔‘‘

Pakistan Lahore | Anhänger von Ex-Premierminister Nawaz Sharif bei seiner Rückkehr aus dem Exil
جاوید فاروقی سمجھتے ہیں کہ رشتے دارون کو ٹکٹ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

انتخابی ٹکٹ کیسے دیے جاتے ہیں؟

عام طور پر بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا پارلیمانی بورڈ ان درخواستوں کو شارٹ لسٹ کرکے امیدواروں سے بات چیت کرتا ہے۔ کچھ جماعتیں ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے کئی اہم حلقوں میں سروے بھی کرواتی ہیں۔ ٹکٹ دینے کے آخری مرحلے میں پارٹی قیادت پارلیمانی بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ٹکٹ دینے کا حتمی فیصلہ کرتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت کئی سیاسی پارٹیاں آج کل انٹرویوز کے ذریعے حتمی امیدواروں کے نام فائنل کر رہی ہیں۔

صحافی جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹیبلز کی اہمیت کے باوجود کوئی بھی پارٹی اپنے ورکرز کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق مخلص ورکرز کو عام طور پر ان حلقوں کا ٹکٹ دیا جاتا ہے، جہاں پارٹی ووٹ زیادہ ہوں اور ان کا جیتنا آسان ہو، ''مسلم لیگ نون نے اپنے ایک کونسلر وحید عالم کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دیے۔ ادھر پیپلز پارٹی نے تو تھر سے تعلق رکھنے والی ایک ورکر کرشنا کماری کو سینٹ کا ٹکٹ دیا۔ سعید غنی اور چوہدری منظور جیسے لوگ بھی تو ورکر ہی ہیں۔‘‘

پیسے کی اہمیت

عام تاثر ہے کہ ٹکٹوں کے اجرا کے موقع پراس بات کو بھی اہمیت دی جاتی ہے کہ کس امیدوار نے پارٹی کو کتنے عطیات دیے۔ لاہور کی کھوکھر برادری اور استحکام پاکستان پارٹی کے علیم خان سمیت کئی ایسے سیاست دان ہیں، جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ پیسے کے زور پر سیاسی مراحل طے کرتے آئے ہیں۔ اب تو کئی کاروباری تنظیمیں اور چیمبنرز آف کامرس بھی یا اپنے امیدوار میدان میں اتارتے ہیں اور یا پھر کئی امیدواروں کی انتخابی مہم کو مالی سہارا فراہم کرتے ہیں۔

Pakistan | Protestmarsch Unterstützer von Imran Khan
توقع ہے کہ ن لیگہ طاقتور حلقوں کی بات اتنی زیادہ نہیں سنے گی، جتنی پی ٹی آئی سنتی تھی، نسیم زہرہتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

رشتہ داریاں بھی اہم ہیں

ماہرین کے مطابق پاکستانی سیاست میں سرگرم، روایتی سیاسی خاندان اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کو الیکشن میں آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آصف علی زرداری ان کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری، ان کی بہنیں فریال تالپور اور ڈاکٹرعذرا کو ٹکٹ ملتے رہے ہیں۔ شریف خاندان میں تو ایسے رشتہ داروں کی ایک طویل فہرست ہے، جو الیکشن میں مسلم لیگ نون کی طرف سے حصہ لیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اور گجرات کی چوہدری فیملی بھی اپنے رشتہ داروں کو انتخابی ٹکٹ دیتی رہی ہیں۔ جاوید فاروقی سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ اس لیے نہیں ہے کہ ان سب لوگوں کے خاندان مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیتے ہیں اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ ٹکٹ لیں۔

ٹکٹوں کی تقسیم میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار

ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں کئی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ یہ بات درست ہے کہ امکانی طور پر جیتنے والی جماعت کو بہتر امیدواروں کے انتخاب کے لیے طاقتور حلقوں کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ سلمان غنی کے بقول اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے اور دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کچھ نہ کچھ کردار ہوتا ہے لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ رول زیادہ ہے، اس لیے اسے کچھ نہ کچھ سیاسی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

تجزیہ کار جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہرمرتبہ کچھ ٹکٹیں خاص اشارے پر دی جاتی ہیں، ''سیاسی جماعتیں بھی یہ ٹکٹیں خوشی خوشی دے دیتی ہیں انہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔‘‘ ان کے خیال میں چوہدری نثار، خواجہ آصف اور ملک احمد خان جیسے سیاست دانوں کی مثالیں اس ضمن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار نسیم زہرہ نے کہا کہ دو ہزار اٹھارہ میں پی ٹی آئی بڑے انتخابی معرکے کی سیاست میں قدرے نئی تھی، اس لیے اس کی ٹکٹوں کے فیصلے کہیں اور ہوئے لیکن اب مسلم لیگ نون طاقتور حلقوں کی فیورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار جماعت بھی ہے، ''اس لیے توقع ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کی بات اتنی زیادہ نہیں سنے گی، جتنی پی ٹی آئی سنتی تھی۔‘‘

کیا تحریک انصاف امیدوار کھڑے کرے گی؟

اس سال کے شروع میں جب پی ٹی آئی کو نوے دنوں میں انتخابات کی امید تھی تو اس نے دو سو پانچ حلقوں میں سے اپنے امیدواروں کا حتمی انتخاب کر لیا تھا۔ اس میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی تھی۔ لیکن اب ان سارے امیدواروں میں سے کچھ پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہوئے اور باقیوں کی بڑی تعداد کو پارٹی کو خیر آباد کہنا پڑا۔ سلمان غنی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا ہو گا اور وہ الیکشن بھی لڑے گی لیکن عمران خان اس الیکشن میں پارٹی کو دستیاب نہیں ہو سکیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان آنے والے انتخابات میں بڑی تعداد میں وکلا کو ٹکٹیں دیں گے لیکن سلمان غنی کے بقول یہ کوئی اچھا تجربہ نہیں ہو گا۔

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟