انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال
6 فروری 2023'متبادل برائے جرمنی‘ (Alternative for Germany) یا اے ایف ڈی (AfD) کا قیام یورپی یونین کے بارے میں کم امیدی کا اظہار کرنے والی ایک پارٹی کے طور پر عمل میں آیا تھا اور پھر جلد ہی یہ جرمن سیاسی جماعت قدرے ناامید اور عدم اطمینان کا شکار جرمن ووٹروں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
اسلام، مہاجرین مخالف جرمن پارٹی: انٹیلیجنس کو تفتیش کی اجازت
اس پارٹی نے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو بھی اپنی صفوں میں جگہ دی اور گزشتہ ایک عشرے کے دوران اسے حاصل سیاسی حمایت بتدریج اتنی بڑھتی گئی کہ اب یہ جماعت حکومت میں شمولیت کے لیے کوشاں ہے۔
اے ایف ڈی کے لیے جشن کی وجوہات
'متبادل برائے جرمنی‘ نے گزشتہ ایک دہائی میں جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے اس دس سالہ سفر میں کامیابی کا جشن منانے کی ہر ممکن وجہ موجود ہے۔
اس پارٹی کو 2017ء سے وفاقی پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بھی نمائندگی حاصل ہے اور یہ جرمنی کے کُل 16 وفاقی صوبوں میں سے 15 کے پارلیمانی اداروں میں بھی نمائندگی کی حامل ہے۔
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق اس وقت پورے جرمنی میں اسے تقریباﹰ 13 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے جبکہ ملک کے مشرق میں نئے وفاقی صوبے کہلانے والی ریاستوں میں تو اسے حاصل عوامی تائید 13 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
شروع سے اب تک آنے والی تبدیلیاں
اے ایف ڈی نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے سیاسی سفر میں کئی حوالوں سے ارتقا کا سفر بھی طے کیا ہے۔ جرمن ماہر سیاسیات اُرزُولا میُونش نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں اس سیاسی جماعت کو کئی ماہرین نے ''انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسند، سامیت دشمن اور نسل پرست جماعت‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
جرمن داخلی انٹیلیجنس نے اے ایف ڈی کی خفیہ نگرانی شروع کر دی
اپنی تاسیس کے وقت یہ جماعت یورپی مشترکہ کرنسی یورو پر بھی تنقید کرتی تھی اور یورپی یونین کے مالیاتی بحران کے شکار ملک یونان کے لیے بیل آؤٹ پیکج کے بھی خلاف تھی۔ پھر 2013ء کے قومی انتخابات میں 'الیکشن متبادل 2013ء‘ کا قیام عمل میں آیا، جو بعد میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر اے ایف ڈی کا پیش رو سیاسی بلاک ثابت ہوا۔
اس کے بعد اقتصادیات کے پروفیسر بیرنڈ لیُوکے، صحافی کونراڈ آڈم اور قدامت پسند جرمن سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے ایک سابق رکن الیکسانڈر گاؤلینڈ نے مل کر اس جماعت کی 'متبادل برائے جرمنی‘ کے طور پر بنیاد رکھی۔
باقاعدہ قیام چھ فروری 2013ء کے روز
اے ایف ڈی کا ایک جرمن سیاسی جماعت کے طور پر باقاعدہ قیام چھ فروری 2013ء کے روز عمل میں آیا تھا۔ اس پارٹی کے دس سال پورے ہونے کے موقع پر جب ڈی ڈبلیو نے اس جماعت کی قیادت سے رابطہ کیا، تو اس کی شریک سربراہ ایلیس وائڈل نے اپنے تحریری جواب میں لکھا، ''آج اے ایف ڈی جرمن سیاسی جماعتوں کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایسا نظام جس میں ماضی میں فیصلہ کن حد تک ترقی پسند قدامت پسندانہ سیاسی طاقت کی کمی تھی۔‘‘
اسلام مخالف جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو جرمانے کا سامنا
'متبادل برائے جرمنی‘ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس پارٹی کی قیادت ماضی میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے مسلسل بدلتی رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کے تین بڑے بانی ارکان میں سے دو اب تک یہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔
جرمن ماہر سیاسیات میُونش کہتی ہیں، ''اے ایف ڈی فکری طور پر ایک ایسی منقسم سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت اور جس کے حامی ووٹروں کے مابین بار بار جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
جرمن شہر ڈریسڈن میں ’نازی ایمرجنسی‘ کا اعلان
اسی ہفتے جرمنی میں رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے میں 75 فیصد جرمن باشندوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اس جماعت نے ابھی تک دائیں بازو کے اپنے انتہا پسندانہ موقف سے کافی حد تک دوری اختیار نہیں کی۔
مردوں کی پارٹی
اے ایف ڈی کے ارکان کی پورے ملک میں موجودہ تعداد 80 ہزار سے تھوڑی سی کم ہے۔ یوں رکنیت کے حوالے سے اس کی باقاعدہ عوامی طاقت ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی طاقت کے تقریباﹰ برابر ہے۔
ایف ڈی پی موجودہ تین جماعتی وفاقی مخلوط حکومت میں شامل سب سے چھوٹی جماعت ہے۔ موجودہ حکومت کے سربراہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی چانسلر اولاف شولس ہیں، جن کی جماعت کے ملک بھر میں ارکان کی مجموعی تعداد تین لاکھ 80 ہزار کے قریب بنتی ہے۔
'متبادل برائے جرمنی‘ کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسے مردوں کی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے 80 فیصد سے زائد ارکان مرد ہیں۔ 2020ء کے موسم گرما میں کرائے گئے ایک غیر سرکای جائزے کے مطابق اے ایف ڈی کے 29 فیصد ارکان انتہائی دائیں بازو کے سیاسی نظریات کے حامل تھے۔
نسل پرستوں کی مقبولیت میں اضافہ، جرمنی کے لیے لمحہ فکریہ
اسی لیے اس جماعت کے ارکان اور اسے ووٹ دینے والے افراد میں مردم بیزاری، سامیت دشمنی اور مطلق العنان طرز حکومت کی حمایت کا رجحان جرمنی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کی نسبت کہیں زیادہ اور شدید ہے۔
روس دوست موقف
یورپی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے اے ایف ڈی کی سوچ کی ایک مخصوص بات یہ بھی ہے کہ اس جماعت کی طرف سے روسی یوکرینی جنگ میں روس کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس پارٹی کے رہنما اس لیے بھی یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کے حامی ہیں کہ ماضی میں ان رہنماؤں کے روس کے ساتھ دیرینہ دوستانہ روابط رہے ہیں۔
اس پارٹی کی شریک سربراہ وائڈل نے اس مطالبے کی مخالفت کی تھی کہ روسی صدر پوٹن کو جنگی جرائم کی کسی عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے یا اس جنگ کے باعث جرمنی یا یورپ کو روس کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرنا چاہییں۔
جرمن آئین کے ستر برس، پارلیمانی بحث: ’ہٹلر اور پرندے کی بیٹ‘
اسی لیے روسی یوکرینی جنگ میں اے ایف ڈی کے رہنما شروع ہی سے اس بات کے بھی خلاف تھے کہ یوکرین کو کوئی ہتھیار مہیا کیے جانا چاہییں۔ اسی تناظر میں جرمن حکومت کی طرف سے یوکرین کو لیوپارڈ ٹو طرز کے جنگی ٹینک مہیا کرنے کے فیصلے کو وائڈل نے 'تباہ کن فیصلہ‘ قرار دیا تھا۔
اگلا ہدف حکومت سازی
وفاقی سطح پر دس سال تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد اے ایف ڈی کا اگلا ہدف اب یہ ہے کہ وہ حکومت سازی کرے یا کسی مخلوط حکومت میں ایک بڑی جماعت کے طور پر شامل ہو۔ اس امر کا وفاقی سطح پر امکان تو مستقبل قریب میں اس پارٹی کی دسترس میں نظر نہیں آتا، تاہم صوبائی سطح پر یہ مشرقی صوبوں میں اپنی ایسی ہی کسی کامیابی یا کامیابیوں کے لیے کوشاں ہے۔
اے ایف ڈی کا مسلم مہاجرین کے خلاف پوسٹر ’گلے کی ہڈی‘ بن گیا
اس کا سبب یہ ہے کہ جرمنی کے مشرقی صوبوں میں خاص کر دور دراز کے دیہی علاقوں میں اس پارٹی کو باقاعدگی سے 20 فیصد سے زیادہ تک ووٹ ملتے ہیں۔ مشرقی جرمنی کے دو وفاقی صوبوں سیکسنی اور تھیورنگیا میں تو یہ جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔
انہی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی کی شریک سربراہ وائڈل نے ڈی ڈبلو کے نام اپنے تحریری جواب میں لکھا، ''حکومت میں شمولیت ہمارا اگلا منطقی قدم ہو گا۔‘‘
م م / ع ا (فولکر وِٹِنگ)