انتہاپسندی کے خلاف بالی وُڈ کی مدد، امریکی خواہش
16 دسمبر 2010ان پیغامات کے مطابق امریکی حکام کا خیال ہے کہ بالی وُڈ کی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف کارگر پیغام دیا جا سکتا ہے۔ یہ سفارتی پیغام لندن میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے 25 اکتوبر 2007 ء کو بھیجا گیا تھا، جس میں دو امریکی عہدے داروں کے برطانیہ کے دورے کا ذکر ہے۔
ان میں ایک فرح پنڈت ہیں، جو مسلم امور پر واشنگٹن کی اعلیٰ مشیر ہیں، جبکہ دوسرے جیرڈ کوہن ہیں، جن کی شناخت ایس پی رکن کے طور پر بتائی گئی ہے۔ فرح پنڈت کو اوباما انتظامیہ نے 2009ء میں مسلمانوں کے لئے خصوصی مندوب مقرر کیا تھا۔
ان دونوں عہدے داروں نے برطانیہ میں مسلم اکثریتی علاقوں کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے رہائشیوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ وہاں بالی وُڈ کے طرف سے دہشت گردی مخالف پیغام دینے کا موضوع بھی گفتگو میں شامل رہا تھا۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں بھارتی اور جنوب ایشیائی باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جس کی وجہ سے یہ یورپی ملک بالی وُڈ کی فلموں کی ایک اہم مارکیٹ بنا ہوا ہے۔
اس سفارتی پیغام کے مطابق پنڈت اور کوہن نے بھارتی فلمی صنعت سے وابستہ لوگوں سے بھی ملاقات کی، جن میں آرٹ ڈائریکٹر محسن عباس، چینل فور کے فاروق دھوندی، پروڈیوسر ڈائریکٹر محمود جمال، لوکیشن منیجر امجد خان اور اداکارہ و گلوکارہ حمیرہ اختر شامل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان افراد کے بالی وُڈ کی شخصیتوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
اس سفارتی پیغام میں مزید کہا گیا، ’پنڈت اور کوہن نے جنوب ایشیائی کمیونٹی کے ایسے مختلف لوگوں سے ملاقات کی، جو فلمسازی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ بالی وُڈ کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف پیغام دینے کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔ اس بات چیت میں یہ پہلو بھی شامل تھا کہ فلموں کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ماحول تیار کیا جائے اور جب اس طرح کی فلمیں بننا شروع ہو جائیں تو پھر بالی وُڈ کے بڑے نام بھی اس مسئلے پر بات کرنے لگیں گے۔’
انہوں نے اس موضوع پر بننے والی فلموں کے لئے بالی وُڈ اور ہالی وُڈ کی ممکنہ شراکت پر بھی بات کی تھی۔
خیال رہے کہ بالی وُڈ میں اس موضوع پر فلمیں بن رہی ہیں۔ اس حوالے سے سیف علی خان اور کرینا کپور کی ’قربان‘، جان ابراہام اور کترینہ کیف کی ’نیویارک‘ اور شاہ رُخ خان اور کاجل کی ’مائی نیم از خان‘ قابل ذکر ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد