انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف پاکستانی پاسپورٹ بائیومیٹرک
20 مئی 2016پاکستانی حکام کے مطابق بائیومیٹرک پاسپورٹ کے ذریعے ملک سے غیر قانونی طور پر دیگر ممالک کا رخ کرنے والے ہزاروں افراد کو روکا جا سکے گا۔ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے وفاقی تفتیشی ایجنسی (FIA) کے حکام سے انسانی ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کے حوالے سے صلاح مشورے کیے۔
بدھ کے روز وزارت داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں بتایا، ’’ہم سن 2017 سے بائیومیٹرک پاسپورٹوں کا اجراء شروع کر دیں گے۔‘‘
پاکستان نے سن 2004 میں کمپیوٹرآئزڈ پاسپورٹوں کا اجراء شروع کیا تھا، جنہیں اسکینک مشینوں کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے، تاہم ان پاسپورٹس میں مائیکرو چپ موجود نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے پاسپورٹ کے حامل شخص کے کوائف تک رسائی ممکن نہیں۔
حسین کےمطابق نئے بائیومیٹرک پاسپورٹ کے ذریعے جعلی سفری دستاویزات بننا ممکن نہیں رہے گا، کیوں کہ جعلی دستاویزات ہی کے ذریعے انسانوں کے اسمگلر اپنا کام کرتے ہیں اور دیہی علاقوں کے غریب افراد کو سمندر پار اچھی نوکريوں کا جھانسا دے کر پیسے اینٹھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق غربت، قدرتی آفات اور ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری اسلامی شدت پسندی اور عسکریت پسندی سے تنگ ہزاروں افراد پاکستان چھوڑ کر ایک بہتر زندگی کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک خصوصاﹰ خلیجی ریاستوں تک پہنچتے ہیں، جب کہ کچھ افراد اپنی زندگی داؤ پر لگا کر یورپ پہنچنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
اس بارے میں حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کہ پاکستان سے کتنے افراد اسمگلروں کے ذریعے دیگر ممالک پہنچ رہے ہیں، تاہم اقوام متحدہ کے مطابق مختلف ممالک سے بے دخل کیے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد میں گزشتہ کچھ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
سن 2013ء میں قریب ساڑھے 66 ہزار پاکستانی شہریوں کو اسپین، یونان، ترکی، عمان اور ایران سے ملک بدر کیا گیا، جب کہ 2010ء میں یہ تعداد 46 ہزار کے قریب تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق انسانی ٹریفکنگ کا شکار بننے والے متعدد افراد کو ایرانی اور ترک سرحد پر پکڑا گیا، ان افراد کی منزل یورپ تھی جب کہ انہیں اسمگلر اپنی گاڑیوں کے مختلف حصوں میں چھپا کر نہایت غیر انسانی انداز سے ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کئی افراد اس اذیت ناک سفر کے دوران ہی دم گھٹنے یا بھوک اور پیاس کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔