1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود تین برس بعد جیل سے رہا

10 جنوری 2022

شہزادی بسمہ بنت سعود مملکت سعودی عربیہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک پر سخت نکتہ چینی کرتی رہی تھیں۔ تین برس قبل انہیں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ علاج کے لیے بیرون ملک سفر پر جانے والی تھیں۔

https://p.dw.com/p/45KgY
Washington Saudische Prinzessin Basmah Bint Saud
تصویر: Mandel Ngan/AFP/Getty Images

سعودی عرب کی شہزادی بسمہ بنت سعود کے قانونی مشیر نے بتایا ہے کہ سعودی حکام نے شہزادی اور ان کی بیٹی کو رہا کر دیا ہے۔ انہیں گزشتہ تقریباً تین برسوں سے بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا۔

ستاون سالہ شہزادی بسمہ بنت سعود بن عبدالعزیز السعود، ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ہی، حقوق انسانی کی سرگرم کارکن اور سعودی شاہی خاندان کی اہم فرد ہیں۔ وہ اور ان کی ایک بالغ بیٹی سہود الشریف مارچ 2019 میں اچانک لا پتہ ہو گئی تھیں۔

ان کے قانونی مشیر ہنری ایسٹرامنٹ نے ایک بیان میں کہا، ''شہزادی خیریت سے ہیں لیکن طبی ماہرین سے ابھی صلاح و مشورہ کریں گی۔ وہ بہت تھکی ہوئی نظر آ رہی ہیں لیکن اچھی حالت میں ہیں اور بذات خود اپنے بیٹوں سے دوبارہ ملاقات کر نے پر شکر گزار ہیں۔''

شہزادی کو کب گرفتار کیا گیا تھا؟

سن 2019 میں فروری کے اواخر میں جب وہ اپنے علاج کے لیے بیرون ملک کے سفر پر نکلنے والی تھیں اسی دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس وقت ان کے ایک قریبی رشتے دار نے بتایا تھا کہ ان کی گرفتاری کے وقت حکام نے ان پر جعلی پاسپورٹ بنانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم سعودی حکومت نے ان کی حراست کے بارے میں کبھی کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا۔ سن 2020 میں شہزادی بسمہ نے اپنی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ انہیں ریاض میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے قید کر رکھا گیا ہے اور یہ کہ وہ بیمار بھی ہیں۔

بسمہ بنت سعود کون ہیں؟

بسمہ بنت سعود مرحوم شاہ سعود کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں، جنہوں نے 1953 سے 1964 تک سعودی عرب پر حکمرانی کی۔ بسمہ مملکت میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تنقید کرتی رہی ہیں۔

Semperopernball | HRM Princess Basmah bint Saud bin Abdulaziz Al Saud
تصویر: Max Stein/Imago Images

ان کی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کو پیش کی گئی ایک درخواست میں ان کے اہل خانہ نے کہا تھا کہ انہیں، ''ہمارے ملک میں ہونے والی بدسلوکی پر ان کی کھلے عام تنقید کی وجہ سے حراست میں لیا گیا۔'' اس درخواست کے مطابق یا پھر اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے والد کی، ''چھوڑی گئی میراث کے منجد اثاثوں کے بارے میں بھی سوال اٹھاتی رہی ہیں۔''

شہزادی بسمہ نے 2006ء میں سعودی عرب کے نشریاتی اداروں کے لیے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد وہ ایک کاروباری خاتون کے ساتھ ساتھ اصلاحات پسند اور انسانی حقوق کے لیے ایک بڑی آوازبن کر اُبھریں۔

سن دو ہزار گیارہ میں وہ اپنی شادی ٹوٹ ہو جانے کے بعد لندن چلی گئی تھیں، جہاں وہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے میں دولت کی عدم مساوات جیسے مسائل کو اجاگر کرتی نظر آئیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق اور آئینی اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کیا۔

شہزادی بسمہ نے 2012ء  میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اس بات پر غمزدہ ہیں کہ سعودی عرب نے آئینی اصلاحات کے ان منصوبوں پر عمل درآمد نہیں کیا، جن سے بادشاہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ کو الگ کیا جانا تھا۔ وہ 2015ء کے بعد سعودی عرب واپس آگئیں اور لندن کی اپنی کچھ کمپنیاں بھی بند کر دیں۔ 2018ء  میں انہوں نے بی بی سی عربی چینل پر یمن میں سعودی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ پھر کبھی میڈیا پر زیادہ نظر نہیں آئیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے) 

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں