محافظین انقلاب کو کچھ نہ کہا جائے، ایران کی امریکا کو تنبیہ
8 اکتوبر 2017ایرانی دارالحکومت تہران سے اتوار آٹھ اکتوبر کے روز نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر امریکا نے ایران کے خلاف مزید کوئی پابندیاں عائد کیں یا ایرانی محافظین انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے جیسے کوئی غلطی کی، تو بہتر ہو گا کہ وہ علاقے میں موجود اپنے فوجی اڈے ایرانی سرحدوں سے مزید دور لے جائے۔
ترکی اور ایران کردستان کے ساتھ سرحدیں بند کریں، عراقی مطالبہ
ترک اور ایران کے مابین تعلقات میں بہتری کی وجوہات
داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا فوجی ایران میں ہیرو
اس حوالے سے ایرانی محافظین انقلاب کور کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے اتوار کے روز کہا، ’’اگر وائٹ ہاؤس نے ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی نئے پابندیوں کا فیصلہ کیا، تو پھر امریکا کو خطے میں قائم اپنے فوجی اڈے بھی ایرانی سرحدوں سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر منتقل کر لینا چاہییں۔‘‘
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ جنرل جعفری نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ ایرانی میزائل دو ہزار کلومیٹر تک کے دائرے میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس وقت امریکا کے ایران کے ہمسایہ ممالک یا خطے کی دیگر ریاستوں میں جتنے بھی فوجی اڈے موجود ہیں، وہ ایران کی قومی سرحدوں سے 500 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔
جنرل محمد علی جعفری نے مزید کہا کہ اگر واشنگٹن حکومت نے ایران کے محافظین انقلاب کو اپنے طور پر کوئی دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی، تو یہی ایرانی عسکری کور اس بات پر بھی غور کرے گی کہ امریکی فوج کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔
ایران میں انقلابی محافظین کور کو نہ صرف داخلی طور پر ملک کا ایک انتہائی طاقت ور عسکری ادارہ سمجھا جاتا ہے بلکہ انہی گارڈز کے مسلح دستے اس وقت شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے اتوار کے روز لکھا کہ جنرل جعفری کے مطابق اگر وائٹ ہاؤس نے ایران کی IRGC کو کوئی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تو ایران بھی اس بات پر غور کر سکتا ہے کہ وہ بھی امریکی فوج کو ’داعش کی طرح کی ایک تنظیم‘ قرار دے دے۔
امریکی پابندی کے باوجود ایران نےبیلسٹک میزائل تجربہ کرلیا
ایران میزائل پروگرام پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، حسن روحانی
سعودی عرب یمن میں دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، ایران
جنرل جعفری کے مطابق امریکا اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ علاقائی معاملات میں دباؤ ڈال کر ایران کو مذاکرات پر مجبور کر سکتا ہے، تو اسے واشنگٹن کی ایک ’بڑی غلطی‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔
ایران کا یہ تازہ موقف اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ ابھی جمعہ چھ اکتوبر کے روز ہی واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا تھا، ’’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی ایران سے متعلق اپنی اس پالیسی کا اعلان کر دیں گے، جو ایران کی طرف سے میزائل تجربات، دہشت گردی کی حمایت اور تہران کی سائبر سرگرمیوں پر واشنگٹن کی طرف سے تہران کو دیا جانے والا جواب ہو گی۔‘‘