1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن: عالمی سطح پر بھارت کا ریکارڈ خراب ترین

29 ستمبر 2022

دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروس بند کیے جانے کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں لیکن اس حوالے سے بھارت کا ریکارڈ خراب ترین ہے۔ گزشتہ برس صرف جموں و کشمیر میں کم از کم پچاسی مرتبہ انٹرنیٹ سروس بند کی گئی۔

https://p.dw.com/p/4HVpu
Indien Internet Shutdown
تصویر: Avishek das/ZUMA Press/Imago Images

ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'ایکسس ناؤ‘ کے مطابق انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حوالے سے بھارتی حکومت کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔ اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس بھارت میں کم از کم 106مرتبہ انٹرنیٹ بند کی گئی جس سے معیشت کو تقریباً 60 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ صرف جموں و کشمیر میں ہی گزشتہ برس 85 مرتبہ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔

بھارتی حکام نے سکیورٹی کو کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا بنیادی سبب بتایا جب کہ ملک کے دیگر علاقوں میں مظاہروں، انتخابات، مذہبی تہواروں اور امتحانات کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیا گیا۔

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن سے وابستہ قانونی مشیر کرشنیش باپٹ کہتے ہیں کہ بھارت میں انٹرنیٹ بند کرنا انتہائی آسان ہے اور مرکزی اور ریاستی سطح کے حکام کسی عدالتی اجازت کے بغیر بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

باپٹ کا کہنا ہے، ''احتجاجی مظاہروں یا امتحانات میں نقل روکنے کے نام پر انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کو ٹھوس فیصلہ قرار دے کر اسے سراہا جاتا ہے جب کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ اگر انٹرنیٹ سروس جاری رہتی تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔‘‘

کیا سیلولر سروس کی معطلی سکیورٹی کی صورتحال کو واقعی بہتر بناتی ہے؟

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس حوالے سے بھارتی وزارت داخلہ کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا۔

بھارت میں مرکزی اور ریاستی سطح کے حکام کسی عدالتی اجازت کے بغیر بھی انٹرنیٹ بند کر سکتے ہیں
بھارت میں مرکزی اور ریاستی سطح کے حکام کسی عدالتی اجازت کے بغیر بھی انٹرنیٹ بند کر سکتے ہیںتصویر: Jagadeesh NV/dpa/picture alliance

قوانین کا غلط استعمال

انٹرنیٹ پر پابندی دنیا بھر میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کا وقفہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی اس سے ہونے والے نقصانات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

’ایکسس ناؤ‘ کے مطابق انٹرنیٹ بند ہونے سے معیشت متاثر ہوتی ہے اور کمزور طبقات کے لوگوں کو زیادہ اقتصادی اور سماجی نقصان ہوتا ہے۔

’ایکسس ناؤ‘ کے مطابق گزشتہ برس 34 ملکوں نے 182مرتبہ انٹرنیٹ سروس بند کی۔ سن 2020 کے مقابلے میں یہ تعداد زیادہ تھی۔ تب 29 ملکوں نے کُل 159 مرتبہ انٹرنیٹ سروسز بند کی تھیں۔

’ایکسس ناؤ‘ کا کہنا ہے کہ بھارت ان چند ملکوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے لیے باقاعدہ ضابطے طے کر رکھے ہیں۔ حکومت نے سن 2017 میں یہ ضابطے بنائے تھے۔ سن 2020 میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ سروس عوام کا بنیادی حق ہے اور کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے انٹرنیٹ بند رکھنا غیر قانونی ہے۔

بھارتی حکام نے سکیورٹی کو کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا بنیادی سبب بتایا
بھارتی حکام نے سکیورٹی کو کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا بنیادی سبب بتایا

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ انٹرنیٹ بند کرنے کے لیے نافذکیے جانے والے تمام احکامات عام کیے جانا چاہییں۔ لیکن عدالت کے اس حکم کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور حکام نے کشمیر سمیت ملک بھر میں انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

باپٹ کہتے ہیں کہ اکثر اس کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔ وہ کہتے ہیں، ''انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حکم کو عدالت میں چیلنج کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ جب تک درخواست دہندہ عدالت میں جاتے ہیں، تب تک متعلقہ حکم کی مدت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘ باپٹ کے مطابق اس کے باوجود ایسے احکامات کو قانونی طور پر چیلنج کرنا ضروری ہے کیونکہ قانون بار بار توڑے جا رہے ہیں۔

اس سال کے اوائل میں کولکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال کی حکومت کا کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا حکم منسوخ کر دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے امتحانات میں طالب علموں کی طرف سے نقل روکنے کے سرکاری ارادے کو بنیاد بنا کر یہ حکم جاری کیا تھا لیکن عدالت نے کہا تھا کہ یہ حکم 'غیر منطقی تھا اور کوئی عوامی ایمرجنسی نہیں تھی۔‘‘

جموں و کشمیر میں گزشتہ برس 85 مرتبہ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا
جموں و کشمیر میں گزشتہ برس 85 مرتبہ انٹرنیٹ بند کر دیا گیاتصویر: Avishek Das/ZUMA Wire/picture-alliance

کشمیر کی صورت حال سب سے خراب

گزشتہ ایک دہائی میں کشمیر میں تقریباً 400 مرتبہ انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئیں۔ حالیہ برسوں میں یہ سلسلہ اور تیز ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو گئیں، چھوٹی صنعتیں یا تو بند ہو گئیں یا انہیں شدید اقتصادی نقصانات اٹھانا پڑے۔

سن 2019 میں انٹرنیٹ سروس بند کیے جانے کے دوران کشمیریوں کو اپنے عزیز و اقربا کو فون کرنے یا دیگر ضروری کالوں کے لیے سرکاری دفاتر، تھانوں اور دیگر عوامی مقامات پر گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ بعض لوگ تو انٹرنیٹ سروس استعمال کرنے کے لیے ٹرینوں کے ذریعہ میلوں کا سفر طے کر کے ان شہروں میں جاتے تھے جہاں تب یہ خدمات دستیاب تھیں۔

کشمیر میں شٹ ڈاؤن، مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کا نقصان

انٹرنیٹ سروسز بند کیے جانے سے پریشان 22 سالہ ملیحہ صوفی کہتی ہیں کہ انہیں تعلیم کے لیے مجبوراً کشمیر سے باہر جانا پڑا۔ انہوں نے دہلی کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''میں کسی ایسی جگہ نہیں رہ سکتی جہاں انٹرنیٹ کسی بھی وقت بند ہو جائے اور پھر کئی دنوں حتیٰ کہ کئی مہینوں تک بند رہے۔ مجھے تو کشمیر میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘‘

ایک 25 سالہ کشمیری نوجوان عمر مقبول کہتے ہیں کہ سن 2019 میں طویل عرصے تک جب انٹرنیٹ بند رہا تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے  انسان 'پتھر کے زمانے‘ میں پہنچ گیا ہو۔

ج ا /  م م (روئٹرز)