پاکستان میں موبائل فون سروس بار بار کیوں بند کی جاتی ہے؟
29 مارچ 2022گزشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں سیلولر نیٹ ورکس کی معطلی کو معمول بنا لیا گیا ہے۔ مذہبی تعطیلات اور سیاسی افراتفری کے دوران سیکورٹی کا بہانہ بنا کر اکثر غیر اعلانیہ طور پر یہ سروسز بند کر دی جاتی ہیں۔
شٹ ڈاؤن سے سکیورٹی کیوں بہتر نہیں ہوتی؟
انسانی حقوق کے لیے سرگرم بائٹس فار آل سے تعلق رکھنے والے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کا خیال ہے کہ یہ طریقہ کار ٹھیک نہیں،''درحقیقت یہ ایمرجنسی خدمات میں خلل ڈالتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلولر نیٹ ورکس بند ہونے کی صورت میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں دہشت گردی کے حملے ان علاقوں میں بھی کیے جا چکے ہیں، جہاں موبائل نیٹ ورکس معطل تھے،'' مثال کے طور پر بہاولپور میں سن 2021 میں عاشورہ کے جلوس کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں 50 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت وہاں یہ سروسز بند تھیں‘‘۔
پاکستانی حکام نے اپریل سن 2021 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس خدشے کی بنا پر زبردستی بلاک کر دیا تھا کہ شدت پرست گروپ ان پلیٹ فارمز کو انتہا پسندی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے حامیوں تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہی استعمال کرتی ہیں۔ حکام نے دسمبر 2021ء میں اسلامی تعاون تنظیم کے 17ویں اجلاس کے دوران سیلولر سروسز کی معطلی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم بعد میں اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔
تازہ سیاسی کشیدگی میں سروسز بند ہونے کے امکانات
ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا کہ موجودہ سیاسی منظرنامے کی وجہ سے بھی شہریوں کو نیٹ ورک کی بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جاری عدم اعتماد کی تحریک اور اپوزیشن کی احتجاجی ریلیاں راولپنڈی اور اسلام آباد میں نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ بن سکتی ہیں۔ حکومتیں ماضی میں بھی سیاسی افراتفری کو ایک وجہ بنا کر موبائل نیٹ ورکس بند کرتی رہی ہیں۔
غیر ضروری پابندیاں غیر آئینی ہیں
ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اسامہ خلیجی اسے شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ معلومات تک رسائی کو جمہوری معاشروں میں بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اسامہ خلجی کے خیال میں نیٹ ورکس کی ایسی بندش ''غیر آئینی‘‘ ہے۔
پاکستان: موبائل فونز کی پیداوار بڑھتی ہوئی، صارفین 183 ملین
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں اکثر سود مند ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ اس طرح خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے،''اگر شہر میں احتجاج یا سیاسی ریلی کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے اور افراتفری پھیل جائے تو ایسی صورت میں آپ اپنے پیاروں تک نہیں پہنچ سکتے یا ان سے رابطہ نہیں کر پاتے۔ یا ایمرجنسی کی صورت میں ایمبیولنس کو کال بھی نہیں کی جا سکتی۔‘‘
اطلاعات کے مطابق 23 مارچ کواسلام آباد میں یوم پاکستان پریڈ کی وجہ سے موبائل سروس دوپہر تک بند رہی تھی۔ ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جب بھی سیاسی کشیدگی ہوتی ہےتو حکومت بغیر کسی منصوبے کے سیلولر سروسز بند کر دیتی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس بارے میں حکومتی موقف جاننے کے لیے حکام سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن متعلقہ حکام نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بائٹس فار آل سے تعلق رکھنے والے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اس طرح کے شٹ ڈاؤنز کے خلاف عدالتوں میں کئی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 ء میں نیٹ ورکس کی بندش کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
بلیک آؤٹ سے لاکھوں متاثر
ڈیجیٹل حقوق کے ماہر خلجی نے کہا کہ نیٹ ورک بند ہونے سے نہ صرف روزمرہ کی زندگی بلکہ کاروبار بھی متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر گھروں سے کاروبار کرنے والے افراد،''رائیڈ ہیلنگ کمپنیاں اور فوڈ ڈیلیوری کا کاروبار کرنے والوں کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے صارفین فون کے ذریعے ہی ان سے رابطے کرتے ہیں۔ دوسرے ماہرین نے بھی اسی بات کی تصدیق کی۔
شٹ ڈاؤن کیوں شروع ہوئے تھے؟
پچھلے چند سالوں میں ٹیلی کام شٹ ڈاؤن کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سکیورٹی امور کی ماہر عائشہ صدیقہ کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے چند سال قبل سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر یہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان کے بقول یہ وہ وقت تھا، جب موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردانہ حملے کیے جاتے تھے، ''میں اسے ایک سستے حل کے طور پر دیکھتی ہوں نہ کہ طویل المدتی حفاظتی اقدام کے طور پر‘‘۔
ٹیلی کمیونیکیشن سروس کا بند کیا جانا صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سکیورٹی کے بہانے اکثر انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سروسز کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اگر براعظم ایشیا کی بات کی جائے تو بھارت میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز دیکھے گئے۔ بھارتی حکام نے 2020ء میں کشمیر میں سیلولر نیٹ ورکس کو معطل کر دیا تھا، جو دنیا میں اب تک کا سب سے طویل ترین شٹ ڈاؤن تھا۔