’او منڈیا فکر نہ کر، سب کج ٹھیک ہو جانا اے‘
23 نومبر 2020بیگم شمیم اختر ایک ارب پتی بزنس مین کی اہلیہ تھیں، ان کا ایک بیٹا پاکستان کا وزیراعظم جبکہ دوسرا بیٹا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ رہا۔ شریف فیملی کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ بیگم شمیم اختر کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اچھے اور برے دن باوقار طریقے سے گزارے۔ اقتدار چل کر ان کے گھر آیا لیکن وہ کبھی متکبر نہ ہوئیں اور پھر جب اس کے بچوں کو قید و بند اور جلا وطنی کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں تو بھی انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
وہ لوگ جن کو کئی عشروں تک شریف فیملی کا قرب میسر رہا ان میں لاہور کے حاجی قمرالزماں کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کا اور شریف فیملی کا ساتھ پینتیس سال پرانا ہے۔ پہلے وہ نواز شریف کے سیکریٹری کے طور پر فرائض سر انجام دیتے تھے لیکن اب تو انہیں شریف فیملی کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حاجی قمرالزماں نے بتایا کہ مائیں تو سب بچوں کے لیے بہت قابل احترام ہوتی ہیں لیکن نواز شریف کا اپنی والدہ کے ساتھ عقیدت کا تعلق بہت گہرا تھا۔ نواز شریف گھر سے جانے اور گھر آنے پر سب سے پہلے اپنی والدہ کے پاس حاضر ہوتے اور ان سے پیار لیتے، ''ایک دفعہ بیگم شمیم اختر چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں، نواز شریف تب وزیر اعظم تھے۔ وہ سوموار کی صبح اسلام آباد روانگی سے قبل ان کے کمرے میں آئے اور ان کے پاؤں کے تلوے کو عقیدت سے چوما۔ اس پر ان کی والدہ خفا ہوئیں کہ میں نے تمہیں کئی مرتبہ کہا ہے کہ ایسے نہ کیا کرو تو اس پر نواز شریف کہنے لگے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے، اس لیے آپ مجھے اس سعادت سے محروم نہ کریں۔‘‘
حاجی قمر بتاتے ہیں کہ نواز شریف اگرچہ وزیراعظم تھے لیکن بیگم شمیم اختر بہرحال ماں تھیں اور غالبا بیگم شمیم اختر وہ واحد خاتون تھیں، جو نواز شریف کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی ڈانٹ سکتی تھی۔
انہوں نے کئی مرتبہ نواز شریف حکومت کوبعض ایسے کاموں سے روکا، جو ان کے نزدیک پسندیدہ نہیں تھے اور وہ ان کے خیال میں عوامی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما سینٹر رانا مقبول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیگم شمیم اختر ایک مشرقی پس منظر کی حامل سادہ اور دین دار خاتون تھیں۔ وہ اپنے گھر تک محدود تھیں اور عبادات میں مشغول رہتیں، '' جب ہم 'طیارہ سازش کیس‘ میں لانڈھی جیل میں قید تھے تو ان دنوں نواز شریف کی اپنی والدہ سے ہونے والی گفتگو سے ہمیں آگاہی ہوتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ کچھ یوں ہوا کہ وہ اچانک غائب سی ہو گئیں اور ان کا ذکر کئی ہفتے تک نہ ہوا تو پتہ کرانے پر معلوم ہوا کہ وہ خاموشی کے ساتھ عمرے پر چلی گئی ہیں۔ واپسی پر جب وہ ہمیں ملیں تو بہت مطمئن تھیں۔ ان کو دعاوں کی قبولیت پر بہت یقین تھا، نواز شریف کو دیکھتے ہی بولیں، (او منڈیا فکر نہ کر، سب کج ٹھیک ہو جانا اے ( اے لڑکے تم فکرمند نہ ہونا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘۔
سینیٹر رانا مقبول احمد بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کی مبارکباد دینے نواز شریف کے گھر گیا۔ نواز شریف میرا بازو پکڑ کر مجھے گھر کےاندر ڈرائنگ روم میں لے گئے کہ رانا صاحب اندر جا کر چائے پیتے ہیں۔ وہاں میں نے دیکھا کہ نواز شریف کی والدہ صوفے پر بیٹھی ہیں اور کلثوم نواز کارپٹ پر بیٹھ کر ان کو جرابیں پہنا رہی ہیں۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ گھر والے ان کے بستر کی چادریں تبدیل کرنے یا ان کا لباس بدلنے میں مدد کے لیے ملازمین کی بجائے یہ کام خود کرتے تھے۔
شریف فیملی کے ساتھ دکھ سکھ کی شراکت رکھنے والے صحافی روف طاہر نے بتایا کہ بیگم شمیم اختر کچھ عرصے سے وہیل چیئر پر تھیں اور نواز شریف اکثر گھر میں خود ان کو لے کر آتے جاتے۔ پہلے وہ گول کوٹھی کے نام سے جانے جانی والی میاں محمد شریف کی رہائش گاہ میں مقیم تھیں لیکن میاں محمد شریف کی وفات کے بعد نواز شریف ان کو اپنے گھر لے آئے۔
روف طاہر بتاتے ہیں کہ کہ نواز شریف اپنی والدہ کے مشورے کو حکم کا درجہ دیتے تھے۔ جب گھر والوں کے اصرار کے باوجود وہ علاج کے لیے باہر جانے پر راضی نہ ہوئے تو انہیں ان کی والدہ سے کہلوا کر باہر جانے پر راضی کیا گیا۔
شریف فیملی کے ایک قریبی رشتے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ بیگم شمیم اختر مکمل طور پر گھریلو اور ایک غیر سیاسی خاتون تھیں لیکن شہباز شریف کو وزیراعلی بنانے کی خواہش کا اظہار انہوں نے کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بھی نواز شریف کو قائل کرنے کی خاطر ان کی والدہ سے کہلوایا گیا تھا لیکن غالبا یہ واحد موقعہ تھا جب نواز شریف نے والدہ کی بات ماننے کی بجائے انہیں محبت کے ساتھ اپنے موقف پر قائل کر لیا تھا۔
جاتی عمرہ کے نواح میں رہنے والے جاوید نامی ایک سیاسی کارکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک مرتبہ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے عمرے پر جانے سے پہلے نواز شریف، جو کہ ان دنوں وزیراعظم تھے، کو جاتی عمرہ کے زرعی فارمز پر ہونے والی کھیتی باڑی کے حوالے سے کچھ ہدایات دیں۔
وزیراعظم نواز شریف اپنی مصروفیات کی وجہ سے بھول گئے۔ میاں محمد شریف واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی ہدایات پر عمل نہیں ہو سکا ہے، اس پر انہوں نے جاتی عمرہ کے مین گیٹ پر کہلوا دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو گھر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے، اسی شام وزیر اعظم نواز شریف اپنی پروٹوکول گاڑیوں کے ہمراہ جب جاتی عمرہ پہنچے تو انہیں سکیورٹی پر مامور عملے نے میاں محمد شریف کے احکامات سے آگاہ کیا۔ اس پر نواز شریف نے پروٹوکول کی گاڑیوں کو واپس بھجوا دیا، خود شریف میڈیکل کمپلیکس کی مسجد میں چلے گئے۔ کئی گھنٹوں بعد رات کو بیگم شمیم اختر کی سفارش پر انہیں معافی ملی اور پھر وہ گھر آ سکے۔
میاں شریف کی وفات کے بعد میاں نواز شریف اپنی والدہ کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ ان کے ڈاکٹروں کے ساتھ خود رابطے میں رہتے اور زیادہ تر اپنی والدہ کے ساتھ کھانا کھاتے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر طویل عرصے سے علیل تھیں لیکن ڈاکٹروں کی طرف سے سفر کرنے سے منع کرنے کے باوجود وہ فروری میں اپنے بیٹے نواز شریف کے پاس لندن چلی گئی تھیں۔
بیگم شمیم اختر کی عمر تقریبا 90 سال تھی۔ میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد ان کی طبیعت تیزی سے بگڑنا شروع ہوئی۔ وہ کلثوم نواز کی رحلت اور بعدازاں نواز شریف اور شہباز شریف کی گرفتاریوں کے حوالے سے بھی پریشانی کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔