اوباما کا آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب
12 جنوری 2016ابھی تک محض چند امریکی صدور وائٹ ہاؤس میں دو صدارتی مدت مکمل کر سکے ہیں۔ یہ ایک نادر موقع ہوتا ہے کانگریس کے دونوں ایوانوں کے سامنے سوچ سمجھ کر اپنی سیاسی پالیسیوں کا میزانیہ پیش کرنے کا۔ گزشتہ 50 سالوں میں تین امریکی صدور رونلڈ ریگن، بل کلنٹن اور جار ڈبلیو بُش کو یہ موقع فراہم ہو سکا تھا اور اب اس فہرست میں باراک اوباما بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اپنے پیش رو صدور کی طرح اب باراک اوباما کو یہ موقع فراہم ہو گیا ہے کہ وہ اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب کا بہترین مصرف لیتے ہوئے امریکی تاریخ میں اپنی جگہ محفوظ کر لیں۔
صدارتی دور پر اِک نظر
گزشتہ ہفتے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اوباما نے پیشگی طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ اُن کا اسٹیٹ آف دا یونین خطاب رواں برس کے سیاسی ایجنڈے کی تفصیلات پر مبنی روایتی گفتگو سے مختلف ہوگا۔
ماہرین کے مطابق اوباما اپنی تقریر میں خاص خاص سیاسی شعبوں کا ذکر ضرور کریں گے مگر محض اُس حد تک جہاں تک یہ تفصیلات اُن کے حق میں ہوں۔ وہ یہ ضرور کہیں گے کہ اُن کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد کے امریکا میں کیا کیا مثبت تبدیلیاں رونماں ہوئیں۔ اس ساری تمہید کا حاصل یہ ہو گا کہ باراک اوباما کا نام بھی اُن امریکی صدور کی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا جنہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ جیسے کے جارج واشنگٹن، ابراھم لنکن یا فرنکلن ڈی روزولٹ۔ ان ناموں کو امریکا میں مشکل حالات میں سہارا دینے والوں اور ترقی کی طرف گامزن کروانے والے لیڈروں میں شامل کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے امریکی علوم کے شعبے کے پروفیسر ایوان کے بقول حقیقتاً اوباما اپنے دورِ صدارت کے سات برسوں بعد اپنی کامیابیوں کو گنوا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’’ اوباما نے امریکا کو شدید کساد بازاری سے باہر نکالا اور وہ ہیلتھ کے شعبے اور وال اسٹریٹ میں اصلاحات لائے۔ خارجہ پالیسی میں اوباما ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے، کیوبا کے ساتھ دیرینہ کشیدگی کے خاتمے اور پیرس منعقدہ ماحولیاتی کانفرنس کی کامیابی جیسے اہم معاملات میں اپنی کامیابیوں کا حوالہ دے سکتے ہیں۔‘‘
اندرونی اور بیرونی سکیورٹی
اپنی دوسری صدارتی مُدت کے آخری دنوں تک اوباما خود کو مکمل طور پر فعال رکھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ انہیں ایک بے اختیار صدر کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ اس کے لیے وہ اپنے خطاب میں تازہ ترین موضوع یعنی اندرون ملک اور بیرون ملک کی سلامتی کی صورتحال کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے طور پر پیش کریں گے۔
پروفیسر ایوان مورگن کہتے ہیں،’’ اوباما یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی سلامتی کے اداروں کو دو اہم مسائل کا سامنا ہے، اندرون ملک عام لوگوں کو دستیاب اسلحہ جات، جو اُن کی تحویل میں نہیں ہونے چاہییں جبکہ بیرون ملک سے امریکا کو اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس سے لاحق خطرات۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہتھیاروں پر پابندی کے قانون کے ضمن میں اوباما ’ایک تیر سے کئی شکار کر سکتے ہیں۔‘‘ اوباما کے پاس یہ ایک ٹھوس سیاسی موضوع ہے کیونکہ امریکا میں ہتھیاروں کی لابی کی طاقت اب کسی سے ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے۔