داعش کے خلاف ’دگنی‘ طاقت استعمال کریں گے، اوباما
15 نومبر 2015پیرس حملوں کے بعد عالمی رہنماؤں نے داعش کے خلاف کارروائی تیز کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ بین الاقوامی اجلاسوں میں پیرس حملوں کا موضوع ہی غالب رہا، جس کی ایک مثال ترکی کے شہر انطالیہ میں اتوار کے روز ہونے والا جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس بھی تھا۔
اجلاس میں شریک امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ ان کا ملک داعش کے خلاف پہلے ہی سے جاری کارروائی کو دگنا کرنے کر دے گا۔ واضح رہے کہ پیرس حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند اسلامی تنظیم نے قبول کی ہے۔ حملوں میں کم از کم ایک سو انتیس افراد ہلاک اور کئی درجن زخمی ہوئے۔ داعش، جو کہ شام اور عراق میں متحرک ہے، نے ان حملوں کو اس کے خلاف امریکی سربراہی میں جاری فضائی آپریشن کا رد عمل قرار دیا ہے۔
اوباما کا جی ٹوئنٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا: ’’روایتی طور پر جی ٹوئنٹی عالمی اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کا ایک فورم ہے، تاہم جمعے کے روز پیرس میں ہونے والے حملوں کے بعد آسمان سیاہ ہو گیا ہے۔‘‘
اوباما نے اجلاس کے حاشیے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کی۔ شام میں جاری شورش کا ایک رخ مشرق وسطیٰ کے اس بحران زدہ ملک سے مہاجرین کی یورپ آمد بھی ہے، جس سے اس براعظم میں بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ مغربی ممالک کی خواہش ہے کہ ترکی ان مہاجرین کے یورپ کی جانب بہاؤ کو روکنے میں کردار ادا کرے۔ داعش کے سدباب کے لیے بھی ترکی کے کردار کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
پیرس کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ داعش مہاجرین کے روپ میں اپنے کارکن یورپی منتقل کر رہی ہے۔
امریکی صدر نے اجلاس کے حاشیے پر روسی صدر ولادمیر پوٹن سے بھی ملاقات کی۔ روس بھی شام میں داعش کے خلاف عسکری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم روس اور امریکا شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل کے حوالے سے متضاد پالیسی رکھتے ہیں۔ روس کا مؤقف ہے کہ اسد حکومت ہی داعش کا قلع قمع کر سکتی ہے، جب کہ امریکا کی رائے ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بغیر شام کا بحران حل نہیں کیا جا سکتا۔