اوباما کابل حکومت کی کارکردگی سے مطمئن
28 مارچ 2010اوباما اتوار کو مختصر وغیر اعلانیہ دورے پرکابل پہنچے جبکہ رات کو واپس روانہ ہوگئے۔ اوباما نے اپنی مدت صدرات کے بہترین قرار دئے جانے والے دنوں میں جنگ زدہ افغانستان کا دورہ کیا ہے۔
انہیں اپنے ملک میں صحت عامہ میں اصلاحات کے بل اور روس سے جوہری تخفیف سے متعلق نئے معاہدے کی شکل میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ کابل کے صدارتی محل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا امریکی شہری افغانستان میں ہوئی پیشرفت سے خوش ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی عملداری کو مزید بہتر کیا جائے اور بدعنوانی و رشوت ستانی پر قابو پایا جائے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر اوباما افغانستان میں موجودگی کے دوران صورت حال کا براہ راست جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث صدر اوباما کا دورہء افغانستان خفیہ رکھا گیا۔ حتیٰ کہ افغان صدر کرزئی کو بھی ان کی آمد سے محض ایک گھنٹہ پہلے ہی بتایا گیا افغان صدر کے ترجمان وحید عمرکے بقول اوباما نے کرزئی کو یقین دلایا کہ امریکہ افغان عوام کو ان کے حال پر نہیں چھوڑے گا اور ساتھ دیتا رہے گا۔ افغان صدر ان جنگجوؤں کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں جو عسکریت پسندی ترک کرکے افغان دستور کے مطابق زندگی گزارنے پر تیار ہیں۔ اوباما نے کابل میں قائم بگرام فوجی اڈے میں امریکی فوجیوں سے خطاب میں ان کی خدمات کو سراہا۔ ان کے بقول امریکہ نے اس جنگ کا انتخاب خود نہیں کیا تھا اور نا ہی امریکہ کا مقصد اپنے اختیار کو وسعت دینا ہے بلکہ امریکہ پر گیارہ ستمبر کو ظالمانہ انداز میں حملہ کیا گیا تھا۔ اوباما نے کہا کہ القاعدہ اور ان کے شدت پسند اتحادی نا صرف افغان اور امریکی عوام کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے خطرہ ہیں۔ اوباما نے فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کی بہترین فوج کا حصہ ہیں۔ اوباما نے ایسے وقت میں افغانستان کا دورہ کیا کہ جب نیٹو اور افغان افواج طالبان کے گڑھ سمجے جانے والے جنوبی علاقوں ہلمند اور قندہار میں نئے محازوں پر برسر پیکار ہیں۔
اس دوران افغانستان متعین غیر ملکی افواج کے سربراہ جنرل سٹینلے میک کرسٹل اور کابل متعین امریکی سفیر کارل آئیکنبیری نے اوباما کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ اوباما مزید 30 ہزار فوجی افغانستان بھیج کر وہاں متعین غیر ملکی افواج کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اگلے سال سے فوج کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں دس ہزار سے زائد اضافی فوجی افغانستان پہنچ چکے ہیں جنہیں ملک کے جنوبی حصوں کی جانب روانہ کیا جاچکا ہے۔ نیٹو افواج نے رواں سال کے دو ماہ میں 105 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق