اورلینڈو حملہ: عمر متین کی بیوی ’منصوبے سے باخبر‘ تھی
15 جون 2016ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے ’پَلس‘ نامی نائٹ کلب پر حملہ کرنے والے افغانی نژاد امریکی شہری عمر متین کی بیوی اپنے شوہر کی اس حملے سے متعلق منصوبہ بندی سے آگاہ تھی۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کو واشنگٹن حکومت اور ریاست فلوریڈا کے مقامی تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ خود بھی اس حملے میں مارے جانے والے قاتل کی موجودہ بیوی نور سلمان پر ایک گرینڈ جیوری کے سامنے فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔ ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ یہ گرینڈ جیوری آج بدھ پندرہ جون کے روز ہی طلب کی جا سکتی ہے۔
کل منگل چودہ جون کے روز امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کے رکن سینیٹر اَینگس کنگ کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ نور سلمان نے اس مناسبت سے کچھ نہ کچھ معلومات رکھنے کے باوجود حکام کو مطلع نہیں کیا تھا۔
اس بریفنگ کے بعد سینیٹر کنگ کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر عمر متین کی بیوی کچھ نہ کچھ جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ کنگ کے مطابق نور سلمان اس معاملے میں تفتیش کاروں کو بنیادی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔ امریکی سینیٹر کے مطابق حملہ آور کی بیوہ تفتیشی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔
قبل ازیں امریکی نشریاتی ادارے این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نور سلمان نے کہا تھا کہ اُس نے اپنے شوہر سے یہ حملہ نہ کرنے سے متعلق بات چیت کی کوشش کی تھی۔ عمر متین کی بیوہ نے امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ایک مرتبہ اپنے شوہر کو اسی نائٹ کلب بھی لے کر گئی تھی، جہاں اس نے بعد میں حملہ کر کے 49 افراد کو ہلاک کر دیا۔ بعض تفتیشی ماہرین نے اِس بات سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ تب عمر متین اسی حملے کی منصوبہ بندی کے لیے اس کلب میں گیا ہو گا۔
نور سلمان کی والدہ اقبال سلمان امریکی ریاست کیلیفورنیا کے نیم شہری قصبے روڈیو میں متوسط طبقے کے ایک رہائشی علاقے میں رہتی ہے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق عمر متین سے شادی کے بعد نور سلمان صرف ایک مرتبہ اپنی والدہ سے ملنے آئی تھی۔ اس خاندان کے ایک ہمسائے راجندر چہال نے کہا کہ اقبال سلمان اپنے داماد کو زیادہ پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ اپنی بیوی نور کو اُس کی والدہ سے ملنے سے روکتا تھا۔ چہال کے مطابق اورلینڈو میں عمر متین کے ہاتھوں درجنوں ہلاکتوں کا علم ہونے کے بعد جب وہ ایک ہمسائے کے طور پر عمر متین کی ساس کو ملنے گیا تو وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
پَلس نائٹ کلب پر فائرنگ کے دوران عمر متین نے جہاں خود ہی ایمرجنسی پولیس سروس کو فون کر کے اپنے اقدام سے آگاہ کیا تھا، وہیں پر وہ شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ساتھ اپنی وفاداری کا دم بھی بھر رہا تھا۔ اس دوران اُس نے چیچنیا کے اُن دو بھائیوں کے ساتھ بھی اظہار یک جہتی کیا جو سن 2013 میں امریکا ہی میں بوسٹن میراتھن کے موقع پر کیے گئے حملوں میں ملوث تھے۔ امریکی ادارے ایف بی آئی کے ماہرین اب تک عمر متین کے ان دعووں سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کا خیال ہے کہ حملہ آور کا بنیاد پرستانہ سوچ کا حامل ہو جانا اس کا ذاتی اور دانستہ فیصلہ تھا، جس میں شاید کسی دوسرے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
اسی دوران میڈیا پر یہ مبینہ دعوے بھی گردش کر رہے ہیں کہ عمر متین باقاعدگی سے اس نائٹ کلب میں جایا کرتا تھا۔ تاہم اس کلب کی مالک خاتون کی ایک ترجمان نے زور دے کر کہا ہے کہ ایسے جملہ دعوے غلط، بے بنیاد اور من گھڑت ہیں کہ عمر متین اس کلب میں آتا رہتا تھا۔