آئی ایس آئی چیف کی تقرری: یہی کرنا تھا تو تاخیر کیوں؟
26 اکتوبر 2021ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکشن کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سوشل میڈیا پر یہ وائرل ہوگئی اور پاکستان کے متحرک میڈیا پر بھی اس کے چرچے ہیں۔ کچھ سیاست دان اس مسئلے پر وزیر اعظم سے وضاحت طلب کر رہے ہیں اور کچھ ناقدین اسے پی ٹی آئی حکومت کی پسپائی سے تعبیر کررہے ہیں۔ کئی ناقدین یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہی کرنا تھا تو حکومت نے تاخیر کیوں کی۔
جگ ہنسائی
مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ "آخر بتایا جائے کہ ان بیس پچیس دنوں میں جنرل فیض سے ایسا کونسا کام لیا جا رہا ہے، جو ان کو انیس نومبر تک رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔‘‘ پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کسی بھی سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی بھی مسئلے کی وضاحت کرتے ہیں۔ "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی کرنا تھا تو پھر اس حساس مسئلہ کے حوالے سے پاکستان کی جگ ہنسائی کیوں کرائی گئی؟، ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کے پاس کسی بھی بات کا جواب نہیں۔‘‘
نئے ڈی جی آئی ایس آئی کون ہيں؟
ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت تھی؟
جے یو آئی کے رہنما جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر یہی کرنا تھا تو وزیراعظم کو پہلے ہی کر دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "جب آئی ایس پی آر نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، تو اسی وقت وزیراعظم کو اس نوٹیفیکیشن کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے ایک ڈرامہ رچا کر پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی کی اور اس مسئلے کو بین الاقوامی میڈیا اور بھارتی میڈیا نے بہت اچھالا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی اپنے معاملات کو بہتر انداز میں جانتی ہے اس لیے وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ جب آرمی چیف نے جس ڈی جی کا انتخاب کیا تھا تو وزیراعظم کو بات مان لینی چاہئے تھی۔
عسکری ڈپلومیسی، جنرل باجوہ سعودی عرب کو کیسے سمجھائیں گے؟
خوش اسلوبی سے مسئلہ حل ہوگیا
کراچی سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس معاملے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن اب یہ خوشی کی بات ہے کیا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف آرمی فوج کے اندر تقرریوں کے حوالے سے بہتر طور پر جانتے ہیں۔ " تو اس حوالے سے یہ بہت بہتر بات ہے کہ جس کا تقرر کیا گیا تھا، اس کے نام کی منظوری ہوگئی۔ اس سے یہ تاثر بھی جائے گا کہ سول ملٹری قیادت میں ہم آہنگی ہے اور اس سے مستقبل میں بھی چیزوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکی دورہ
بے یقینی ختم ہوگئی
کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف بزنس مین احمد چنائے کا کہنا ہے کہ اس خبر نے بزنس کمیونٹی میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسٹاک مارکیٹ بہت حساس ہوتی ہے اور مختلف طرح کی خبروں پر مختلف طرح کا ردعمل دیتی ہے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی جس پراسٹاک ایکسچینج نے منفی ردعمل دیا۔ لوگوں نے ٹریڈنگ روکی اور سرمایہ کار پیسہ لگانے سے اجتناب کر رہے تھے لیکن اب چونکہ یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے، اس سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا جو بزنس اور سرمایہ کاری کے لئے بہت اہم ہے۔‘‘
احمد چنائے کا مزید کہنا تھا کہ اس سے یہ تاثر بھی زائل ہوگا کہ ملک میں سیاسی قیادت اور ایسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی خلیج ہے۔