آئی ایم ایف کی سخت شرائط نہ چاہتے ہوئے قبول کریں گے، شریف
24 فروری 2023پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی سخت شرائط قبول کرنا ہوں گی۔ یہ بات انہوں نے جمعہ 24 فروری کے روز وفاقی دارالحکومت میں اپنے دفتر میں ملکی سلامتی سے متعلق اعلیٰ حکام سے ایک ملاقات کے دوران کہی۔
وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا، ''ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے لیے ناخوشگوار شرائط کو قبول کرنا پڑے گا۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ جلد ہی طے پا جائے گا۔
پاکستانی حکام فروری کے اوائل سے پالیسی فریم ورک کے مسائل پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور وہ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط ہو جانے سے متعلق پر امید ہیں۔ یہ معاہدہاقتصادی بحرانکے شکار پاکستان کے لیے دیگر دو طرفہ اور کثیر الجہتی قرض دہندگان سے مزید رقوم کی آمد کی راہ بھی ہموار کر دے گا۔ اس معاہدے پر دستخط ہو جانے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ 2019ء میں طے پانے والے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی قسط بھی جاری کر دے گا۔
پاکستانی معیشت اس وقت شدید بدحالی کا شکار ہے اور زر مبادلہ کے ملکی ذخائر صرف تقریباً تین ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جو محض تین ہفتوں تک کی غیر ملکی درآمدات کے لیے بھی بمشکل کافی ہوں گے۔ اس صورتحال میں ڈوبتی ہوئی معیشت کو بیرونی فنانسنگ کی اشد ضرورت ہے۔
شہباز شریف نے وضاحت کیے بغیر کہا کہ ایک 'دوستانہ ملک‘ بھی پاکستان کو تعاون فراہم کرنے سے پہلے معاہدے کی تصدیق کا انتظار کر رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق دیرینہ اتحادی ملک چین نے اسی ہفتےپاکستان کے لیے 700 ملین ڈالر کی ری فنانسنگ کا اعلان کر دیا۔
اس مہنگائی میں جینا مشکل ہو چکا ہے | تحریم عظیم کا کالم
خیال رہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر، افراط زر اور شدید مہنگائی نے عام شہریوں کے لیے زندگی انتہائی مشکل بنا دی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کے معاہدے کی وجہ سے پاکستانی حکومت کو تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بہت سی مالی اعانتوں کا بھی خاتمہ کرنا پڑا، جس کا براہ راست اور بہت برا اثر پہلے ہی سے انتہائی تنگ دست عوام پر پڑا ہے۔
ش ر ⁄ م م (روئٹرز)