اٹلی: انتخابات کا سال اور دس ہزار بے گھر تارکین وطن
9 فروری 2018یورپ میں مہاجرین کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں اٹلی سب سے نمایاں ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد سے اب تک بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
لیبیا سے زیادہ تر پاکستانی ہی کیوں یورپ کا رخ کر رہے ہیں؟
’پناہ کے نئے یورپی قوانین جون میں تیار ہو جائیں گے‘
دوسری جانب یورپ میں مہاجرین کی منصفانہ تقیسم کے یورپی یونین کے منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اٹلی آنے والے تمام غیر ملکی اسی ملک میں اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا رہے ہیں۔ مہاجرین اور ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کی بہت زیادہ تعداد سے نمٹنے میں اطالوی حکام کو شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں رواں برس اٹلی کے عام انتخابات میں مہاجرین اور مہاجرت کے موضوعات کلیدی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
اٹلی میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس یورپی ملک میں دس ہزار سے زائد سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کو رہائش کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے تارکین وطن پرانی متروک عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور سینکڑوں تارکین وطن ایسے بھی ہیں جو ملک بھر میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جمعرات نو فروری کو اس عالمی تنظیم نے یہ تفصیلات اٹلی میں مہاجرین کو فراہم کردہ رہائشی سہولیات کے بارے میں تیار کردہ اپنی ایک رپورٹ میں جاری کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے ’بے گھر‘ تارکین وطن میں سے نصف متروک عمارات میں پناہ لیے ہوئے ہیں جب کہ ایک تہائی افراد کھلے آسمان تلے اور باقی ماندہ خیموں سے بنائی گئی عارضی رہائشی گاہوں میں رہ رہے ہیں۔
اس صورت حال سے دوچار مہاجرین کو اطالوی معاشرے میں اپنے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا سامنا بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک اطالوی شہری نے افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کر دیا تھا۔ اس حملہ آور کے اجانب دشمنی پر مبنی اس اقدام کی مہاجرین مخالف سیاست کرنے والی دائیں بازو کی جماعتوں سمیت کئی عوامی حلقوں نے بھی تائید کی تھی۔
ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈز کے مطابق سن 2016 کے اواخر سے اب تک پندرہ سے زائد غیر ملکی اٹلی سے یونان جانے کی کوششوں میں ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران لاکھوں یورپی یہودیوں نے بھی ہجرت کے لیے ایلپس کے پہاڑی سلسلوں سے گزرنے والے راستے اختیار کیے تھے۔ اس پہاڑی گزرگاہ کو ’ڈیتھ پاس‘ یا ’درہء موت‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔