اٹک خودکش دھماکہ، تحقیقات شروع
16 اگست 2015اس واقعے کے بعد ابھی تک جائے واردات پر ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل جاری ہے۔ زخمیوں کو راولپنڈی کے ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں ایک بڑا سرچ آپریشن بھی شروع کر دیا گیا ہے اور مشتبہ گروہوں کے مخصوص ٹھکانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ ملک بھر میں سیکورٹی کے انتظامات بھی بڑھا دئیے گئے ہیں۔
سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ صوبائی وزیر داخلہ کے حفاظتی انتظامات میں وہ کونسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے اس سانحے کو نہ روکا جا سکا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ شجاع خانزادہ کے ساتھ پولیس کے ڈی ایس پی کی شہادت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے ساتھ سکیورٹی موجود تھی۔ تاہم ان کے بقول ان کو اپنے علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے خطرات لاحق تھے۔
پنجاب میں زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی حالیہ کوششوں کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق چند دن پہلے پنجاب حکومت کی طرف سے سکیورٹی الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ شجاع خانزادہ کو دہشت گردوں کی طرف سے ممکنہ خطرے سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔
روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایاز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے کمانڈر تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی ٹیم کے کپتان کو نشانہ بنا لینا دہشت گردوں کی اہم کامیابی تو ہے لیکن ان کے بقول اس سے دہشت گردی کے خلاف حکومتی عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دہشت گرد اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اب سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایاز خان کی رائے میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے پولیس کی استعداد بڑھانے اور پولیس کو جدید ترین تربیت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سیکورٹی امور کے ممتاز ماہر اور تجزیہ نگار میجر جنرل (ر) زاہد مبشر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے کی تفصیلی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ دہشت گردوں کے کچھ ساتھی کہیں ہماری اپنی صفوں میں تو شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرنل (ر) شجاع نے فوج میں بھی خدمات سرانجام دی لیکن اللہ نے انہیں شہادت کا درجہ ان کی حالیہ خدمات کے دوران عطا کیا۔ ان کے بقول وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اثاثہ تھے۔ ان کے قاتلوں تک پہنچنا سکیورٹی کے اداروں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ ان کی رائے میں پنجاب میں پولیس کے محکمے کو پروفیشنل بنیادوں پر استوار کر کے کے پی کے کی طرح غیر سیاسی بنانا بھی بہت ضروری ہے۔
روزنامہ آواز کے ایڈیٹر خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اٹک کے سانحے اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ دہشت گردی کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوے درست نہیں ہیں۔’’ ابھی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی اطلاعات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ بعض کالعدم تنظیموں کے لیے حکومتی افراد کی سرپرستی کے تاثر کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول اٹک کے سانحے نے پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف حکومتی کامیابیوں کے دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور دہشت گردوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب بھی اہم ٹارگٹس کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے بقول اس واقعے کو روایتی تحقیقات کی نذر کرنے کی بجائے ایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ کراچی اور فاٹا میں دہشت گردی کے خاتمے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پنجاب دہشت گردی سے محفوظ ہو چکا ہے۔