اگرامریکا جوہری معاہدے سے نکلا تو مشرق وسطیٰ کا امکانی منظر
4 مئی 2018اگر امریکا سن 2015 میں طے پانے والی ڈیل سے علیحدہ ہوتا ہے تو اس سے یہ ڈیل اپنی موت آپ مر جائے گی۔ اس ڈیل پر ایران کے ساتھ چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکا نے دستخط کیے تھے۔ یورپی یونین بھی جوہری ڈیل کے طے پانے کے عمل میں شریک تھی۔ ماہرین کے مطابق ڈیل کے ختم ہونے کی صورت میں مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان نقصانات کا مختصر احوال یہ ہو سکتا ہے:
ایرانی جوہری ڈیل کو بچانا ضروری ہے، گوٹیریش
جرمنی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر قائم ہے، میرکل
ایرانی جوہری معاہدے کی اہمیت بڑھ گئی ہے، برطانیہ
ٹرمپ جوہری ڈیل پر قائم رہیں ورنہ ’نتائج شدید‘، ایرانی صدر
عراق
عراق میں جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی بیخ کنی کے لیے ایران نے ہزاروں شیعہ جنگجوؤں کو عسکری تربیت دی ہے اور اب یہ ایک اہم قوت بن چکے ہیں۔ ڈیل منسوخ ہونے کی صورت میں عراق میں متعین امریکی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کا امکان موجود ہے۔
شام
عراق کی طرح شام میں بھی متعین امریکی فوجیوں کو ایران نواز جنگجوؤں اور حزب اللہ کی جانب سے حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے مطابق شام میں ایران نے اسّی ہزار شیعہ جنگجو بھرتی کر رکھے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق شام میں ایران کی براہ راست موجودگی ایک بڑا خطرہ ہو سکتی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران شام میں ایران کی مبینہ تنصیبات کو اسرائیل نے نشانہ بھی بنایا ہے۔
لبنان
سن 2006 میں لبنان کی انتہا پسند عسکری تنظیم حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ چونتیس روزہ جنگ کر چکی ہے۔ ایران کھل کر اب حزب اللہ کی حمایت و امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایرانی ڈیل کی ناکامی سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بھی شدید کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور یہ کشیدگی ایک اور جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
یمن
عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن میں بھی ایران کی موجودگی حوثی ملیشیا کی صورت میں ہے۔ اسی ملک میں جہادی دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ بھی سرگرم ہیں۔ ایران نواز حوثی ملیشیا سعودی عرب پر بیلسٹک میزائل پھینکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کو سعودی ایئر ڈیفنس نظام فضا میں تباہ بھی کر رہا ہے لیکن ڈیل کی ناکامی کے بعد امریکی اتحادی سعودی عرب کے ساتھ ایران کا رویہ جارحانہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جوہری ڈیل کے ختم ہونے پر ایران جوہری پروگرام پر عمل درآمد دوبارہ شروع کر سکتا ہے اور اس باعث اسرائیل کی تشویش بھی بڑھ جائے گی۔ یہ صورت حال مشرق وسطیٰ کے مجموعی استحکام کے لیے شدید خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
ع ح ⁄ ص ح ⁄ روئٹرز