’اگر ملک میں انصاف ہوتا تو عاصم سلیم باجوہ گرفتار ہوتے‘
28 ستمبر 2020اس گرفتاری کے بعد مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو نواز شریف کا ساتھ نہ چھوڑنے کی سزا ملی ہے۔ ان کے مطابق اگر پاکستان میں احتساب اور انصاف ہوتا تو شہباز شریف نہیں بلکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کا خاندان گرفتار ہوتا۔
لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے پیر کی صبح شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے تفصیلی دلائل سننے کے بعد ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے فورا بعد قومی احتساب بیورو کے اہلکاروں نے شہباز شریف کو احاطہ عدالت سے حراست میں لے لیا تھا۔ اس پر عدالت کے باہر موجود نون لیگ کے کارکن مشتعل ہو گئے اور انہوں نے نیب اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
احتجاج کا اعلان
اس گرفتاری کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے صحافیوں کو بتایا کہ شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف ملک کے کونے کونے میں احتجاج کیا جائے گا، ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اجلاس بھی فوری طور پر طلب کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں احتجاج کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروائی جا رہی ہے۔ ‘‘
مریم نواز کی پریس کانفرنس
لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز شریف نے احتسابی عمل کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے نیب، حکومت اور آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ اور چئیرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹینینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا خاندان تو کئی دہائیوں سے بلکہ سیاست میں آنے سے بھی پہلے سے بزنس میں تھا۔ لیکن وزیر اعظم کے معاون خصوصی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، جو کہ ایک تنخواہ دار آدمی تھے، ان کے اور ان کے بچوں کے پاس اربوں روپے کے اثاثے کیسے آ گئے؟ '' عاصم باجوہ کی اہلیہ جو کہ ایک ہاوس وائف ہیں، ان کے پاس اتنے زیادہ اثاثے کہاں سے آ گئے۔ عاصم باجوہ ایک قابل احتساب انسان ہیں مگر پتہ نہیں کیوں نیب کو ان کے یہ سارے اثاثے نظر نہیں آ رہے ۔ کسی میں ہمت ہے، جو عاصم باجوہ کو نوٹس بھیج سکے۔‘‘
مریم نواز نے کہا کہ عدلیہ کو عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے کیس کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ ان کے مطابق '' پاکستان میں میڈیا پر اتنا دباو ڈالا گیا کہ یہاں عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی خبر نہیں چھپ سکی۔ البتہ اس خبر کی تردید شائع ہوتی رہی اور لوگ حیرانی سے یہ پوچھتے رہے کہ یہ وضاحت کس خبر کی ہے؟‘‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ ایک یکطرفہ احتساب ہے اور نیب کو پشاور میٹرو، بلین ٹری منصوبہ، عمران خان کے تین سو کنال کے گھر کو ریگولرائز کرنے اور وفاقی وزرا کی کرپشن نظر نہیں آ رہی۔
مریم نواز نے الزام لگایا کہ سیاست دانوں اور میڈیا کی طرح عدلیہ پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے، ''آپ اگر عدلیہ کو دباو میں لائیں گے۔ اگر ججوں کو بلیک میل کریں گے تو اس سے ادارے متنازعہ ہو جائیں گے۔ اب جبکہ عدلیہ پر دباو ڈالنے والے کمزور ہو رہے ہیں، اس لئے امید ہے کہ آئین اور قانون پر چلنے والے جج انصاف پر مبنی فیصلے دیں گے۔‘‘
مسلم لیگ نون میں تقسیم کی کوششیں
ان کے مطابق نون سے شین کو نکالنے والے کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور ان کی اپنی چیخیں نکل گئی ہیں، ''ہمارے پاس استعفوں کے علاوہ فیصلہ کن لانگ مارچ کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر ہم نے استعفے دیے تو پھر حکومت کو الیکشن کرانے کی مہلت نہیں مل سکے گی۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں پری پول دھاندلی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو کا ردعمل
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سے وابستہ سیاستدانوں کو نوٹس بھیجنا اور گرفتار کرنا وزیراعظم عمران خان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے، ''یہ مفرور ڈکٹیٹر کو نہ تو نوٹس بھیجتے ہیں، نہ گرفتار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔
بلاول کاکہنا تھا کہ مفرور ڈکٹیٹر، جن پر سنگین الزامات ہیں، انہیں نہ کوئی نوٹس بھیجا جاتا ہے نہ گرفتار کیا جاتا ہے، ''عمران خان کی ہمشیرہ اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی پر سنگین الزمات ہیں مگر انہیں نیب طلب نہیں کرتا۔‘‘
حکومت کا موقف
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو سزا اس بات پر ملی کہ وہ عدالت کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے جبکہ یہ کسی ادارے کے سامنے پیش ہونا اپنی ہتک سمجھتے ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ ''مریم نواز آج دعویٰ کر رہی تھیں کہ ہم تو خاندانی رئیس ہیں، خاندانی رئیس ہونا اور اثاثے بنانا کوئی بُری بات نہیں لیکن شہباز شریف کی گرفتاری کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے، ان سے جو سوالات پوچھے گئے، انہوں نے ان کا جواب نہیں دیا۔‘‘