ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن، کون کیا ہے؟
1 جون 2011جسٹس جاوید اقبال
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں جب کہ اسلامی فقہ کی تعلیم اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے اور بین الاقوامی قانون کی تعلیم آسٹریلیا سے حاصل کی۔ جسٹس جاوید اقبال بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔ انہوں نے مشرف دور میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد قریباً دو ہفتے تک قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ جسٹس جاوید اقبال نے پرویز مشرف دور میں پی سی او کے تحت سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ وہ اس بنچ میں بھی شامل تھے، جس نے 3 نومبر 2007ء کو جنرل مشرف کی طرف سے لگائی جانے والی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدر عاسمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مشاورت کے بغیر اس کمیشن میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ عمل قانون کے مطابق نہیں ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم
صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے فخرالدین جی ابراہیم سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور آئینی امور کے ممتاز ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اپنی دیانتداری اور غیر جانبداری کی وجہ سے قانونی حلقوں میں ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ 1928ء میں بھارتی گجرات کے علاقے دھرول میں پیدا ہونے والے فخرالدین نے 1981ء میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل آف پاکستان، سپریم کورٹ کے جج اور سابق وزیر قانون کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ وہ 19 اپریل 1989ء سے 6 اگست 1990ء تک سندھ کے گورنر بھی رہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے حال ہی میں ایک خط کے ذریعے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس کمیشن کے حوالے سے اپنے تحفظا ت سے آگاہ کیا ہے۔
لیفٹینٹ جنرل (ر) ندیم احمد
لیفٹینٹ جنرل (ر) ندیم احمد کو 2005ء کے زلزلے اور حالیہ سیلاب کے دوران ریلیف اور تعمیر نو کےکاموں کے حوالے سے سر انجام دی جانے والی خدمات کے حوالے سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ آرمی میں ان کی شہرت ایک ایماندار اور پروفیشنل سولجر کے طور پر رہی ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے قابل اعتماد ساتھی تصور کئے جاتے رہے ہیں۔ وہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر جنرل، وائس چیف آف جنرل سٹاف اور کور کمانڈر منگلا بھی رہےہیں۔ انہوں نے جنگی امور کی تعلیم پاکستان اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے حاصل کر رکھی ہے۔ وہ 2005ء کے زلزلے کے دوران امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے آرمی کی طرف سے رابطہ کار کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی دوران انہیں اقوام متحدہ کے امدادی اداروں اور مختلف ڈونر ممالک کے نمائندوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سال اپریل میں انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز کی عدم ادائیگی اور ان کی سفارشات کے نہ مانے جانے کی وجہ سے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے چئیرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہیں ہلال امیتاز اور تمغہ بسالت سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں۔
عباس خان
صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے عباس خان کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان سے رہا ہے۔ روزنامہ جنگ کے چیف رپورٹر مقصود بٹ کے مطابق انہیں پیپلز پارٹی کے ایک اتحادی میاں منظور احمد وٹو کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سندھ اور سرحد کے آئی جی بھی رہ چکے تھے۔ 1962ء میں پولیس سروس جوائن کرنے والے عباس خان پبلک سیفٹی کمیشن آف پاکستان کے رکن اور نیشنل پولیس کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ ستارہ بسالت کے حامل عباس خان کو بھی ایک ایسے دیانت دار پولیس آفیسر کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، جو پولیس سروس کے دوران تحقیقاتی امور میں دباؤ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
اشرف جہانگیر قاضی
اشرف جہانگیر قاضی بنیادی طور پر کیریئر ڈپلومیٹ ہیں۔ ان کے والد کا تعلق بلوچستان کے علاقے پشین سے اور ان کی والدہ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ جہانگیر اشرف قاضی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کے طور پر سوڈان اور عراق میں خدمات سر انجام دیں۔ اس سے پہلے وہ امریکہ، چین، بھارت اور مشرقی جرمنی میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انہیں ایک ماہر سفارت کار کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ وہ سفارتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں کوپن ہیگن، ٹوکیو اور لندن میں بھی کچھ عرصہ تعینات رہے ہیں۔
نرگس سیٹھی کو اس تحقیقاتی کمیشن کی سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ وہ پاکستان میں کیبنٹ ڈویژن کی وفاقی سیکرٹری ہیں اور ایک نہایت با اثر بیوروکریٹ سمجھی جاتی ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نرگس سیٹھی کو صدر پاکستان آصف علی زرداری کا اعتماد حاصل ہے۔ وہ ان 54 سرکاری افسروں میں شامل تھیں، جنہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بہت سے سینئر افسروں کو نظر انداز کر کے 22 ویں گریڈ میں ترقی دی تھی۔
اگرچہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے اس تحقیقاتی کمیشن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی تشکیل کے حوالے سے ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کا بھی کہنا ہے کہ حکومت نے یکطرفہ کمیشن بنا کر پارلیمنٹ کی توہین کی ہے لیکن پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ ایک غیر جانبدار اور متوازن تحقیقاتی کمیشن ہے۔ ان کے بقول اس کمیشن کو ایبٹ آباد کے آپریشن کے حوالے سے امریکیوں کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے اور اس کمیشن کی رپورٹ لوگوں کے سامنے لائی جانی چاہیے اور اس پر عمل در آمد یقینی بنایا جانا چاہیے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امجد علی