ایران: برطانوی کارکن کو ایک برس مزید قید کی سزا
27 اپریل 2021ایرانی نژاد برطانوی خاتون کارکن نازنین زغاری ریٹکلف کے وکیل نے 26 اپریل پیر کے روز بتایا کہ تہران کی ایک عدالت نے انہیں مزید ایک برس قید کی سزا سنائی ہے۔ عالمی برادری نے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
برطانوی کارکن کو یہ سزا ایک ایسے وقت سنائی گئی ہے جب ایران اپنے نازک جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے عالمی طاقتوں سے گفت و شنید میں مصروف ہے۔
سزا کی وجوہات کیا بتائی گئی ہیں؟
تینتالیس سالہ برطانوی کارکن کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں ایک برس قید کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انہیں یہ سزا مبینہ طور پر ملکی، ''نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے دی گئی ہے۔''
ان کی قانونی ٹیم کے مطابق اس سزا کا تعلق سن 2009 میں لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہرے سے ہے جس میں نازنین زغاری ریٹکلف نے بھی حصہ لیا تھا۔
اس سے قبل ریٹکلف گھر میں نظر بند تھیں جنہیں مبینہ جاسوسی اور ایرانی حکومت کے خلاف بغاوت جیسے الزامات کے تحت پانچ برس کی سزا مکمل ہونے کے بعد گزشتہ ماہ ہی رہا کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نازنین زغاری کو گزشتہ مارچ میں وقتی طور پر جیل سے رہا کر کے تہران میں انہیں ان کے والدین کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
”غیر انسانی اور غیر منصفانہ"
برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے اپنے ایک بیان میں اس سزا کو، ''پوری طرح سے غیر انسانی اور غیر منصفانہ بتا یا۔'' انہوں نے کہا، ''ہم نازنین کی فوری رہائی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں تاکہ وہ رہا ہو کر برطانیہ میں اپنے لواحقین کے پاس واپس آ سکیں۔''
نازنین زغاری کے شوہر رچرڈ ریٹکلف نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک غلط اشارہ ہے اور ایرانی حکام نے، ''واضح طور پر مذاکرات میں اسے ایک مہرے کے طور استعمال کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔''
ایک نفسیاتی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ زغاری ریٹکلف، ''سنگین اور دائمی تکلیف دہ تناؤ، انتہائی افسردگی اور جنونی قسم کے عوارض میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے قید تنہائی میں ایک طویل وقت گزارا ہے اور گردن، کندھوں اور بازوؤں میں درد جیسی جسمانی تکالیف سے بھی دور چار ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ طویل وقت سے اپنے اہل خانہ سے جدائی، گھر میں نظر بندی کے دوران اور جیل میں قید کے دوران علاج نہ ملنے کی وجہ سے بھی وہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی ہیں۔
لندن اور تہران کے درمیان عشروں پرانا تنازعہ
برطانیہ اور ایران کے درمیان 40 کروڑ پونڈ کا ایک پرانا تنازعہ ہے جسے دونوں ملک حل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ سن 1970 کی دہائی میں برطانیہ اور ایران کے مابین اسلحے کے ایک معاہدے کے ختم ہونے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں لندن حکومت کو زر تلافی کے طور پرایران کو 40 کروڑ پونڈ کی رقم ادا کرنی تھی۔
ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی نے سنہ 1979 میں برطانیہ سے ٹینک خریدے تھے اور رقم بھی دیدی تھی تاہم برطانیہ نے وہ ٹینک کبھی فراہم نہیں کیے۔ نازنین کے اہل خانہ اور بعض گروپوں کا کہنا ہے کہ ایران اس موضوع پر برطانیہ سے گفت و شنید کے لیے نازنین زغاری کو بطور مہرا استعمال کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس سے انکار کرتا رہا ہے۔
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے بھی برطانوی شہری کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
امریکا اس معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور پر الگ ہوگیا تھا اور اب اس حوالے سے بات چیت میں بھی برطانیہ کا اہم رول ہے۔
زغاری ریٹکلف 'تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن' میں پروجیکٹ مینیجر تھیں۔ انہیں سن 2016 میں تہران ایئر پورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ برطانیہ واپس آ نے کی کوشش کر رہی تھیں۔ بعد میں ان پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرنے کے الزامات عائد کیے گئے اور عدالت نے انہیں اس کے جرم میں پانچ برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)