1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: خواتین کی تصاویر، ویب سائٹ کے خلاف کریک ڈاؤن

24 جولائی 2023

ایرانی حکام نے ملک کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنیوں میں سے ایک کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس بندش کی وجہ ویب سائٹ پر خواتین کی تصاویر تھیں، جن میں وہ ’ہیڈ اسکارف‘ نہیں پہنے ہوئے تھیں۔

https://p.dw.com/p/4UK3a
Iran Iranische Frauen gehen während der Wiederbelebung der Moralpolizei in Teheran auf einer Straße
تصویر: Majid Asgaripour/WANA/REUTERS

ایران کے نیم سرکاری میڈیا کے مطابق اس ای کامرس کمپنی کی ویب سائٹ پر کمپنی کی خواتین ملازمین کو اسکارف کے بغیر دکھایا گیا تھا۔ ایران میں خواتین کے لباس میں قانونی طور پر ہیڈاسکارف لازمی ہے۔

ایران میں بغیر حجاب کے دوڑنے پر کھیلوں کے سربراہ کا استعفیٰ

کیا یورپی یونین کے رکن ملکوں میں حجاب پر پابندی ہے؟

اس اقدام سے ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی خواتین پر ایک مرتبہ پھر 'اسلامی لباس‘ نافذ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کرد نژاد ایرانی لڑکی مہسا امینی کو گزشتہ برس مبینہ طور پر  'اسلامی لباس‘ نہ پہننے پر ہی حراست میں لیا گیا تھا، جب کہ دوران حراست یہ لڑکی ہلاک ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہی ایران میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے جب کہ ایرانی حکومت نے ’اخلاقی پولیس‘ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

دیجی کالا نامی ویب سائٹ کو ایران کی 'ایمازون‘ کہا جاتا ہے۔ اس ویب سائٹ پر کمپنی کی  خواتین ملازمین کی متعدد ایسی تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں، جو ہیڈاسکارف کے بغیر تھیں۔ اس کمپنی کے چالیس ملین سے زائد صارفین ہیں اور یہ کمپنی تین لاکھ مرچنٹس کی بھی میزبانی کرتی ہے۔

ایران چوں کہ سخت ترین امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایمازون طرز کی بین الاقوامی ویب سائٹ سے کٹا ہوا ہے، ایسے میں دیجی کالا ایرانی ای خریداروں کے لیے ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔

ہیڈ اسکارف، ترک خواتین کے لیے بھی بڑا مسئلہ

ایرانی دارالحکومت تہران کی مونسپلٹی سے جڑے روزنامہ ہمشیری کے مطابق دیجی کالا کے ایک دفتر کو بند کیا گیا ہے، تاہم یہ ویب سائٹ بدستور فعال ہے۔

ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ پر تفصیلات ظاہر کیے بغیر لکھا گیا ہے کہ عدالت تصاویر سے تعلق کے تناظر میں اس ویب سائٹ کے خلاف درج مقدمات کا جائزہ لے رہی ہے۔

ع ت، ک م (اے پی)