ایران سے تجارت بڑھانے کی خواہش کتنی حقیقت پسندانہ ہے؟
18 اگست 2022مفتاح اسماعیل کے اس بیان کا کئی معاشی ماہرین نے خیر مقدم کیا ہے لیکن کچھ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ ایسا کس طرح ممکن ہو گا؟ ماضی میں بھیمختلف پاکستانی حکومتوں نے تجارت بڑھانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن وہ خواہش شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکی۔ یہاں تک کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی۔ تہران کا دعوی ہے کہ اس نے معاہدے سے متعلق شرائط پوری کر دی ہیں اور گیس پائپ لائن کو پاکستانی سرحد کے قریب پہنچا دیا ہے لیکن اسلام آباد اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر نہیں کر سکا۔ ماضی میں پاکستان امریکی پابندیوں اور دباؤ کا عذر پیش کرتا رہا ہے۔
پاکستانی وزیر خزانہ نے کیا کہا؟
ایرانی نیوز ایجنسی کو ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے یہ تجویز دی تھی کہ دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ سو ملین ڈالر یا یورو تک لے جایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو کہا ہے کہ اس حوالے سے ایرانی وزیر خزانہ سے بات چیت کرے تا کہ اس تجویز کو عملی شکل دی جا سکے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاک ایران تجارت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کرنسی ہے کیونکہ پاکستان ڈالرز میں لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھول سکتا۔ تاہم وزیر خزانہ کا دعوی تھا کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا دعوی تھا کہ پاکستانی بینکوں پر ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان مقامی کرنسی میں بھی تجارت کر سکتا ہے۔
تجارت کو بڑھایا جائے
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران سے تجارت بڑھانا پاکستان کے معاشی مفاد میں ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ اگر ایران سے تجارت بڑھائی جائے تو پاکستان کو فریٹ کی مد میں بہت بچت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کوبتایا، ''ہمارے لئے یہ بہترین موقع ہے کیونکہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے دنیا توانائی کے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔ ایران گیس پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہمیں نہ صرف ایران سے تجارت بڑھانی چاہیے بلکہ ایران پاکستان پائپ لائن کو بھی تکیمل تک لے جانا چاہیے۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمیں یہ گیس بہت سستی پڑے گی۔‘‘
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے مالی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ بھارت اور دوسرے ممالک نے بھی ایران سے پابندیوں کے باوجود تجارت کی ہے اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایران کی قومی گیس کی کمپنی کے سربراہ نے پاکستان سے گیس کے مسئلے پر بات چیت شروع کرنے کا عندیہ کچھ ہفتوں پہلے دیا تھا۔ تو پاکستان کو اس مثبت پیش رفت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ پاکستان بھی ایران سے تجارت بڑھانے کا خواہاں ہے اور یہ تجارت ملکی مفاد میں ہے۔‘‘
ایران سے گیس کی درآمد بہت مشکل
واضح رہے کہ تہران پر امریکہ اور کچھ مغربی ممالک کی طرف سے کئی طرح کی پابندیاں عائد ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ کیونکہ پاکستان مغرب کے زیر اثر مالیاتی اداروں کی مالی مدد پر انحصار کرتا ہے۔ اس لئے وہ کسی ایسے ملک سے تجارتی معاہدے نہیں کرے گا، جس پر امریکہ یا مغرب نے پابندیاں لگائی ہوں۔
سابق سیکریٹری پلاننگ کمیشن فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت محدود پیمانے پر بارٹر سسٹم کے ذریعے ایران سے اشیا خرید سکتا ہے لیکن بڑی خریداری یا معاہدے کے لیے بارٹر سسٹم کو استعمال کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایران سے بجلی امپورٹ کر رہے ہیں اور اس کے بدلے چاول اور دوسری اشیا بیچ رہے ہیں لیکن گیس خریداری کا معاہد ہ اربوں ڈالرز میں ہوتا ہے، جو امریکہ کسی صورت بھی برداشت نہیں کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے ہم کسی تیسرے ملک کے ذریعے بھی ایران کو ادائیگی نہیں کر سکتے، جیسا کہ ترکی روسی گیس لے کر آگے بیچ رہا ہے یا بھارت روسی تیل خرید کر بیچ رہا ہے۔ تو یہ خریداری اور ان سے بڑے پیمانے پر تجارت امریکی پابندیوں کے اٹھے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔‘‘
امریکہ کا ممکنہ ردعمل
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ پاکستان کی طرف سے تجارت بڑھانے کے عمل کو پسند نہیں کرے گا اور وہ پاکستان کو مختلف طریقوں سے مجبور کرے گا کہ وہ ایسا نہ کرے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار احسن رضا کہ کہنا ہے کہ واشنگٹن نے نئی دہلی اور بیجنگ کو ایران سے محدود پیمانے پر خریداری کی رعایت دی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیکن ایسی کوئی رعایت پاکستان کو نہیں مل سکتی۔ کیونکہ پاکستان واشنگٹن پر کئی حوالوں سے انحصار کرتا ہے، اس لئے پاکستان معاشی عوامل کی وجہ سے امریکہ اور مغرب کو ناراض نہیں کرے گا۔‘‘
ترکمانستان گیس پراجیکٹ میں پیش رفت
احسن رضا کے مطابق اگر پاکستان امریکی و مغربی پابندیوں کے باجود ایران سے گیس خریدتا ہے یا بڑے پیمانے پر تجارت کرتا ہے تو امریکہ کا رد عمل سخت ہو سکتا ہے، '' امریکہ اور یورپی یونین پاکستانی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیں۔ تو امریکہ اس ایکسپورٹ کو متاثر کر سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر دباو ڈال کر پاکستان کے مالی مسائل میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تو مفتاح اسماعیل کا بیان صرف بیان ہی ہے۔ پالیسی بنانے والے کسی ٹھوس اقدام سے پہلے یہ تمام عوامل پیش نظر رکھیں گے۔‘‘