1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: مظاہروں میں شدت اور سفر سے متعلق جرمنی کی نئی وارننگ

22 اکتوبر 2022

ایران پانچ ہفتوں سے جاری مظاہروں کی لپیٹ میں ہے جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی نے ایسے ایرانی باشندوں کو جن کے پاس جرمنی کی شہریت بھی ہے، ایران سفر کرنے کے نتیجے میں غیر قانونی گرفتاریوں سے متعلق خبردار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4IXjm
Solidarität mit den Protesten im Iran, Demo in Berlin
تصویر: Markus Schreiber/AP Photo/picture alliance

اطلاعات کے مطابق جنوب مشرقی ایران کے شہر زاہدان میں 21 اکتوبر کو نماز جمعہ کے بعد ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگانے کے ساتھ ہی مبینہ طور پر بینکوں اور ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ بھی کیا۔

صوبائی محکمہ پولیس کے سربراہ احمد طاہری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کو بتایا کہ اس سلسلے میں پولیس نے ’ہنگامہ آرائی کرنے والے‘ کم از کم 57  افراد کو گرفتار کیا ہے۔

مظاہرین کو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ ڈکٹیٹر کا اشارا ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب ہوتا ہے جبکہ بسیج ایران کی وہ فورسز ہیں جن کا حالیہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا رہا ہے۔

22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران میں پانچ ہفتوں سے پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد دوران حراست مہسا امینی کی موت ہو گئی تھی۔

یورپی یونین ایران پر مزید پابندیاں لگائے گی؟

مزید سختر گیر کریک ڈاؤن کے مطالبات

زاہدان میں جمعے کی نماز کے بعد یہ مظاہرے ’بلڈی فرائیڈے‘ کے احتجاج میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے تین ہفتے بعد ہوئے ہیں۔ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 30 ستمبر کو زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے مظاہرے کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں سکیورٹی فورسز نے کم از کم 66 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

شہر میں جاری مظاہروں کے دوران یہ تشدد اس وقت پھوٹ پڑا تھا، جب علاقے کے ایک پولیس کمانڈر کی جانب سے ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی اطلاع پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

اس نو عمر لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے نے عوامی غصے کو مزید بھڑکا دیا، جس کا آغاز دوران حراست مہسا امینی کی موت کے بعد ہوا تھا۔

اس حوالے سے ملک گیر سطح پر جاری مظاہرے سن 1979 کے انقلاب کے بعد ایرانی حکمرانوں کے لیے سب سے بڑے چیلنج  کے طور پر ابھرے ہیں۔ بہت سے مظاہرین اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ادھر دارالحکومت تہران میں سخت گیر عالم احمد خاتمی نے ملک بھر میں مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے نماز جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا، ’’عدلیہ کو فسادیوں سے نمٹنا چاہیے، جنہوں نے قوم سے غداری کی ہے اور دشمن کی پانی کی چکی میں پانی ڈال رہے ہیں۔ اس انداز سے کہ دوسرے لوگ بھی دوبارہ فساد کرنے پر غور کریں۔‘‘

خاتمی نے مزید کہا، ’’انہوں نے دھوکے میں آ جانے والے بچوں سے کہا ہے کہ اگر وہ ایک ہفتے تک سڑکوں پر یونہی جمے رہے، تو حکومت گر جائے گی۔ خواب دیکھتے رہو۔‘‘

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

دوہری شہریت والوں کے لیے جرمنی کی وارننگ

جمعے کے روز ہی ایک علیحدہ پیش رفت میں، جرمنی نے ایران کے لیے سفری تنبیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ جو افراد جرمنی کے ساتھ ہی ایران کی شہریت بھی رکھتے ہیں، ان کے لیے ایران کا سفر خطرے سے خالی نہیں ہے۔

سفر سے متعلق ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد کو ایران میں غیر قانونی طور پر گرفتار ہونے اور طویل قید کی سزا سنائے جانے کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔

برلن نے اس سے پہلے بھی ایرن کے سفر سے متعلق تنبیہ جاری کی تھی تاہم گزشتہ روز کے واقعات کے تناظر میں اس وارننگ کی سطح کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔

بدھ کے روز ہی ایک ایرانی خبر رساں ایجنسی نے بتایا تھا  کہ سکیورٹی فورسز نے احتجاج میں ملوث ہونے کے الزام میں 14 غیر ملکیوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس میں امریکی، برطانوی اور فرانسیسی شہری بھی شامل تھے۔

ص ز/ ر ب  (روئٹرز، اے ایف پی)