ایران میں ایک دن میں بیس سنّی ’دہشت گردوں‘ کو پھانسی
4 اگست 2016جمعرات کو ایرانی میڈیا نے بتایا کہ پھانسی پانے والے ان قیدیوں کے خلاف متعدد الزامات میں پولیس اسٹیشنوں پر حملے کرنا اور ریاستی سلامتی کے خلاف کام کرنا بھی شامل تھا۔
آئی آر آئی بی ٹیلی وژن نے پراسیکیوٹر جنرل محمد جواد منتظری کے حوالے سے بتایا کہ ’ان لوگوں نے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا تھا، تباہی پھیلائی تھی اور کچھ کُرد علاقوں میں سنّی علماء کو ہلاک کیا تھا‘۔ بتایا گیا ہے کہ ان تمام قیدیوں کو منگل کے روز پھانسی پر لٹکایا گیا۔
بدھ کے روز ایران کی انٹیلیجنس کی وزارت نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں 2009ء اور 2011ء کے درمیانی عرصے میں ہونے والے چوبیس مسلح حملوں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان سبھی حملوں کے پیچھے ’توحید و جہاد‘ کہلانے والے ایک ہی گروپ کا ہاتھ تھا۔
اس وزارت کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران یہ گروپ بم حملوں اور ڈاکوں کے ساتھ ساتھ اکیس افراد کے قتل کا بھی ذمہ دار تھا۔ مزید یہ کہ اس ملیشیا نے دو ایسے سنّی مذہبی رہنماؤں کو ہلاک کیا، جو شیعہ اکثریتی ایران کے علماء کے ایک طاقتور ادارے کے رکن تھے۔
ایرانی حکام کے مطابق اس سنّی انتہا پسند گروپ کے ایک سو دو ارکان کی شناخت کر لی گئی ہے اور یہ کہ ان میں سے متعدد پولیس فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے بھی جا چکے ہیں:’’گرفتار کیے گئے افراد میں سے کچھ کو موت کی سزائیں سنائی گئیں جبکہ دیگر کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔‘‘
ناروے میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس‘ نامی گروپ نے منگل کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے اور بین الاقوامی مبصرین پر زور دیا ہے کہ وہ اس ایرانی اقدام کی مذمت کریں۔
اس گروپ کے ایک ترجمان محمود امیری مقدم نے کہا: ’’اگر سب کی نہیں تو ان میں سے کئی قیدیوں کے مقدمات کی کارروائی غیر منصفانہ تھی اور انہیں ایسے الزامات کے تحت پھانسی دی گئی، جن کے لیے اعترافِ جرم تشدد کر کے کروایا گیا تھا۔ انہیں پھانسی دیا جانا ایک جرم ہے۔‘‘
پھانسی کی سزا پانے والوں میں سے ایک کی اہلیہ نے بتایا کہ ایرانی حکام نے اُسے رجائی شہر نامی جیل میں اپنے شوہر کے ساتھ آخری ملاقات کے لیے بلایا تھا لیکن پھر ساتھ ہی دوسری کال آ گئی کہ لواحقین جیل کی بجائے سیدھے اُس قبرستان میں پہنچیں، جہاں ان قیدیوں کو دفنایا جائے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2015ء میں ایران میں 977 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ اس سال اب تک یہ تعداد سات سو تک پہنچ چکی ہے۔