ایران میں حالیہ احتجاج اور سن دو ہزار نو کے مظاہروں کا تقابل
3 جنوری 2018خبر رساں ادارے اے پی کے ایک تجزیے کے مطابق یہ مظاہرے سن 2009 میں محمود احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ اپوزیشن کے مطابق انتخابات غیر منصفانہ تھے اور احمدی نژاد دھاندلی سے فتح یاب ہوئے۔ انتخابات کے بعد لاکھوں کی تعداد میں عوام نے سیاسی جبر کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیا۔ چند ماہ تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کو’گرین موومنٹ‘ کا نام دیا گیا۔یہ سخت گیر خیالات کی حامل مسلم قیادت میں ہلچل مچا دینے والا پہلا واقعہ تھا.
جواب میں صاحب اقتدار پارٹی کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا اور مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں اُن پر فائرنگ سے لے کر گرفتاریاں تک عمل میں آئیں۔ ان مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور کئی کو جیل جانا پڑا۔
تب سے اب تک ایران میں ایک بار پھر متزلزل معیشت، بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف بے چینی دیکھی جا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ جمعرات سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک 21 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔گو کہ ان مظاہروں کے پیچھے کوئی ایک مرکزی تحریک کار فرما نہیں تاہم سوشل میڈیا پر اس کو Tazahorat-e Sarasari یا ’ ہر طرف مظاہرے ’ کا نام دیا جا رہا ہے۔
2009 میں ہونے والے مظاہروں اور حالیہ احتجاج میں کیا فرق ہے ، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
مظاہرین کون ہیں
2009 میں ہونے والے مظاہرین ہزاروں کی تعداد میں تہران، تبریز، اصفہان اور شیراز جیسے بڑے شہروں کی سڑکوں پر کئی دن احتجاج کرتے رہے۔ اس کے برخلاف حالیہ مظاہرے چھوٹے شہروں میں کیے جا رہے ہیں اور ان میں مظاہرین کی تعداد بھی چند سو ہی ہے۔ لیکن یہ گزشتہ مظاہروں کی نسبت زیادہ تیزی سے دوسرے علاقوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغاز قدامت پسندوں کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شہر مشہد میں انڈوں اور پولٹری کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج سے شروع ہوا جس نے تیزی سے دوسرے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایران: پُر تشدد مظاہروں کے بعد اب حکومت کی حمایت میں ریلیاں
بدامنی کے لیے رقوم، ہتھیار ایران کے دشمنوں نے دیے، خامنہ ای
موجودہ سسٹم نامنظور
حالیہ ہونے والے مظاہروں کی ابتدا تو کرپشن اور معیشت کی گرتی صورتحال کے خلاف شروع ہوئی لیکن جلد ہی ایسے نعرے بھی سننے میں آنے لگے جن میں صاف لفظوں میں ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اور حکومت کی مخالفت کی جارہی ہے یعنی سسٹم کو رد کیا جا رہا ہے۔ یہ سن 2009 میں ہونے والے مظاہروں سے یکسر مختلف صورتحال ہے جس میں صرف احمدی نژاد کی کامیابی کے خلاف بات کی جا رہی تھی۔
واضح قیادت کا فقدان
سن 2009 کی گرین موومنٹ بنیادی طور پر ایک اصلاح پسند تحریک تھی جس کو سابق صدر محمد خاتمی، مستقبل کے صدر موسوی اور بعض دیگر ممتاز سیاست دانوں کی حمایت حاصل تھی۔ یہ افراد آزادی اور مغرب کی جانب لچکدار رویہ اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ اس لیے مظاہرین کے سامنے یہ واضح تھا کہ وہ کن مطالبات کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ مظاہروں میں نہ تو کوئی واضح قیادت سامنے آئی ہے اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا ہے کہ تہران میں موجود حزب اختلاف کے ارکان کی اس احتجاج کوتائید حاصل ہے یا نہیں۔
اصلاح پسند اور سخت گیر خیالات
ماضی میں احمدی نژاد کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران ملک میں سخت گیر خیالات کی حامل حکومت کو مکمل کنٹرول حاصل تھا۔ اُس وقت طاقت کے زور پر احتجاج کو دبا دیا گیا تھا۔ حالیہ مظاہروں کے حوالے سے اکثر عوامی حلقوں میں بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سخت گیر موقف رکھنے والی حکومت کے برخلاف کسی حد تک معتدل خیالات کے حامل صدر حسن روحانی احتجاج کو عوام کا حق قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب اصلاح پسند نئے معاشی اصلاحات کے حق میں بات کر رہے ہیں ۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی 2009 میں ہونے والے احتجاج کے نتائج کی روشنی میں نہایت کھل کر اپنے مطالبات کے حق میں سامنے نہیں آیا ہے۔ غالباﹰ اس کے پس پردہ یہ خیال بھی موجود ہے کہ کہیں انتشار بڑھنے سے ایران کو ناقابل تلافی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
پہلے ٹوئٹر اور اب ٹیلی گرام اور واٹس ایپ
جب 2009 میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ندا آغا سلطان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا تو ان کے آخری لمحات پر مشتمل ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو نے ندا کو بطور بغاوت کا چہرہ متعارف کرایا۔ یہ وہ وقت تھا جب سوشل میڈیا کا دور نیا نیا شروع ہوا تھا۔ اس وقت دس لاکھ سے بھی کم ایرانیوں کے پاس سمارٹ فون موجود تھے۔
تاہم اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملک کی نصف آبادی یعنی 48 ملین ایرانیوں کے پاس اسمارٹ فون ہیں۔ انسٹاگرام کے علاوہ پیغام رساں ایپس مثلا ٹیلی گرام اور واٹس ایپ کا استعمال نہایت مقبول ہے۔ چونکہ یہ حکومت کی سخت نگرانی سے کسی حد تک آزاد ہیں، اس لیے نوجوان اس نئی ٹیکنالوجی کو تحریک کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کے پروپیگنڈے کے لیے اب سوشل میڈیا زیادہ موثر ثابت ہو رہا ہے۔