1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی خواتین کی ہمت اور امید

30 اکتوبر 2022

ایران میں ہونے والے مظاہروں کی اصل محرک خواتین ہیں۔ وہ خود مختار زندگی کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اپنے وقار کے لیے لڑ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4IlQ3
Türkei Iran Protest
تصویر: Emrah Gurel/AP Photo/picture alliance

دنیا راد نے ایک ایسا انوکھا کام کرنے کی ہمت کی، جس کا خواب ایران میں بہت سی خواتین رات دن دیکھتی ہیں۔ روز مرہ کے لباس میں کیفے میں جا کر بے خوف و خطر بیٹھ کر فرائیڈ انڈے کا آرڈر دینا۔

قریب ایک ماہ قبل دنیا راد نے ایک تصویر پوسٹ کی تھی۔ جنوبی تہران کے ایک روایتی طور پر نسبتاً زیادہ مذہبی علاقے جاویدیہ کے ایک کیفے میں اپنی اور اپنی بہن کی اس تصویر کے ساتھ اُس نے یہ متن تحریر کیا تھا،'' ناشتے کے وقت کام کے دوران ہمارا مختصر وقفہ۔‘‘ ایک روز بعد دنیا راد کی بہن نے لکھا کہ دنیا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تہران سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ طالبہ مریم (فرضی نام ) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ آپ کو مضحکہ خیز لگ سکتا ہے لیکن ہم صرف ایک سادہ اور عام زندگی چاہتے ہیں۔ میرا خواب ہے کہ میں روزمرہ کے کپڑوں میں یونیورسٹی جا سکوں، اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جا سکوں، مسلسل گرفتاری سے ڈرے بغیر ہنستی کھیلتی ایک خوشگوار زندگی گزار سکوں۔‘‘

بنیادی حقوق کی جنگ

پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد سے ہونے والے مظاہروں کے پیچھے خواتین ہی محرک ہیں۔ خواتین کی 'منظم تضحیک‘ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا غم و غصہ ان کے متحرک ہونے کی اہم ترین وجہ ہے۔ ایک ایرانی مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شادی امین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ غصہ ایرانی خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین سے متحد کرتا ہے۔ کیونکہ ان تمام خواتین کو یکساں مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘

Protest im Iran
خواتین اس وقت ہونے والے مظاہروں میں سب سے اہم محرک ہیں۔تصویر: Twitter

شادی امین جرمنی میں رہتی ہیں اور ایران میں LGBTQ اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے لیے مہم چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ایرانی خواتین اپنے کم سے کم اور بنیادی حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ریاستی طاقت نہ صرف اس بات کا تعین کرتی ہے کہ خواتین کو خود کو عوام کے سامنے کیسے پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہیے بلکہ اس نے 40 سال سے زیادہ عرصے سے خواتین شہریوں کو منظم طریقے سے حقِ رائے دہی سے محروم کر رکھا ہے۔ شریعت اور اسلامی قانون کے نام پر  انہیں حقِ رائے دہی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ تمام ضابطوں اور قوانین کی تعمیل کرتے ہیں، مثال کے طور پر ہر روز سر پر اسکارف پہنتے ہیں، تو بھی وہ مہسا امینی کی طرح گرفتار ہونے اور مارے جانے کے خطرے میں ہی رہتی ہیں۔‘‘

ایرانی پولیس نے 22 سالہ نوجوان کی موت کا ذمہ دار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ جو بھی اس پر یقین نہیں کرتا اور سڑکوں پر پرامن احتجاج میں شامل ہوتا ہے اسے سکیورٹی فورسز کی گولی کا نشانہ بننے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ 32 سالہ غزالیہ چلبی کی طرح۔ ایک ہفتہ قبل، ایک ویڈیو آن لائن منظر عام پر آئی تھی جسے غزالیہ نے 21 ستمبر کو شمالی ایران میں اپنے آبائی شہر امول میں ایک مظاہرے کے دوران اپنے سیل فون سے ریکارڈ کیا تھا۔ ویڈیو کے 20 ویں سیکنڈ پر، اُس کی چیختے ہوئے آواز سنی جا سکتی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے، ''خوفزدہ مت ہو۔ ہم سب ساتھ ہیں۔‘‘ بس یہ اُس کی آخری آواز تھی۔  پھر اسے گولی مار دی گئی۔ اس کا فون زمین پر گرا، تصاویر کھنچتی رہیں اور صدمے سے چور مظاہرین چیخ چیخ کر اس سے پوچھتے رہے،''کیا وہ زندہ ہے۔‘‘

آزاد زندگی کا خواب

ایرانی مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن شادی امین کا کہنا ہے کہ ایران میں خواتین سکیورٹی فورسز کی''بربریت‘‘ سے واقف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،''اس کے باوجود وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر سیاسی نظام اسی طرح چلتا رہا تو ان کا مستقبل اچھا نہیں ہو گا۔ وہ سب تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں مکمل شعور ہے، وہ اپنے معاشرے کے عدم مساوات کو اب مزید برداشت نہیں کریں گی۔‘‘

ایران کے زیر حراست مظاہرین کو تشدد اور موت کا خطرہ، ہیومن رائٹس گروپ

 Slogans gegen Islamische Republik während des jüngsten Volksaufstands im Iran
ایران میں خواتین میں شعور اور تعلیم بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔تصویر: UGC

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایران میں 60 فیصد طالب علم خواتین ہیں۔ تاہم لیبر مارکیٹ میں خواتین کا تناسب صرف 15 فیصد ہے۔

طاقت کے مراکز سے خواتین کی دوری

خواتین ناراض ہیں کیونکہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں ایک آزاد اور خود مختار زندگی گزارنے کا موقع مشکل سے ہی ملتا ہے۔ اس حقیقت سے جُدا کہ شریعت پر مبنی قوانین خواتین کو نابالغ شہری بناتے ہیں اور عورت کی زندگی کے تمام اہم فیصلے اس کے باپ یا شوہر کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ اپنی جنس کی وجہ سے منظم طریقے سے پسماندہ رکھی جاتی ہیں۔

ورلڈ اکانومک فورم کی ایک حالیہ تحقیق سے بھی یہ حقائق سامنے آئے ہیں۔ جینڈر گیپ رپورٹ 2022 ء میں ایران بین الاقوامی مقابلے میں 146 میں سے 143 ویں نمبر پر ہے۔ ڈبلیو ای ایف کی رپورٹ میں تعلیم، صحت اور سیاست کے شعبوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور ان میں صنفی مساوات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں خاص طور پر خواتین کی سیاسی شرکت درجہ بندی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

 مثال کے طور پر سیاست میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کی وجہ سے جرمنی ایک درجے اوپر دسویں نمبر پر چلا گیا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران میں طاقت کے مرکزی ڈھانچے میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ مذہبی رہنما بھی نہیں بن سکتیں۔ انہیں صدر کے لیے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہے، انہیں عدلیہ سے باہر رکھا گیا ہے اور خواتین کو ماہرین کی کونسل، گارڈین کونسل یا ثالثی کونسل جیسے اہم اداروں کا رکن بننے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

شبنم فون ہائم / ک م/ اا