ایران: پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے
1 مئی 2020حال ہی میں منظر عام پر آنے والا یہ معاملہ ایرانی ٹیکس دہندگان کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ایران میں سرکاری رقوم کے استعمال کا آڈٹ کرنے والے اعلیٰ ترین ملکی ادارے 'دیوان محاسبات کشور‘ یا سپریم آڈٹ کورٹ (ایس اے سی) کے سربراہ عادل آذر نے چودہ اپریل کو عوامی سطح پر یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے مختص کردہ ملکی درآمدی بجٹ میں سے تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔ اس بارے میں عادل آذر کی طرف سے ایک باقاعدہ رپورٹ اب ملکی دفتر استغاثہ کو بھی بھجوائی جا چکی ہے۔
سپریم آڈٹ کورٹ کی اس رپورٹ کے مطابق تہران حکومت نے گزشتہ برس مارچ سے لے کر اس سال مارچ تک کے ایک سال کے عرصے کے دوران درآمدات کی مد میں 31.4 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اس دوران لیکن جتنی بھی مصنوعات درآمد کی گئیں، ان کی مالیت 26.6 ارب ڈالر رہی جبکہ باقی ماندہ 4.8 ارب ڈالر کا کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں گئے۔ اس ادارے کو ان تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے ممکنہ استعمال سے متعلق کوئی دستاویزی ریکارڈ یا شواہد بھی نہ مل سکے۔
صدر حسن روحانی کا ردعمل
'دیوان محاسبات کشور‘ کے سربراہ کا موقف منظر عام پر آنے کے ایک روز بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا تھا، ''کچھ بھی غائب نہیں ہوا۔ حکومت کے پاس ایسی کاروباری شخصیات کی ایک فہرست موجود ہے، جنہوں نے درآمدات کے لیے حکومت سے سبسڈی کے ساتھ زر مبادلہ کے طور پر ڈالر حاصل کیے تھے۔‘‘
ساتھ ہی صدر روحانی نے عادل آذر پر غلط فہمیاں پیدا کرنے والی معلومات پھیلانے کا الزام بھی لگایا تھا۔ ایرانی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ اربوں کی یہ رقوم غائب نہیں ہوئیں اور ماضی کی طرح حکومت کو درآمد کنندگان پر اب بھی پورا اعتماد ہے۔
ساتھ ہی صدر روحانی نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کاروباری افراد جنہوں نے ایک سال کے مذکورہ عرصے کے دوران ایران میں کوئی مصنوعات درآمد نہیں کیں، انہیں سپریم آڈٹ کورٹ سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ یہ وضاحت کی جا سکے کہ انہوں نے انہیں دیا گیا زر مبادلہ کہاں خرچ کیا۔
عدلیہ غیر مطمئن
ایرانی عدلیہ کے لیے صدر روحانی کا یہ وضاحتی موقف تسلی بخش ثابت نہیں ہوا تھا۔ ملکی دفتر استغاثہ کے اعلیٰ اہلکار علی الغازی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ستائیس اپریل کو یہ اعلان بھی کر دیا کہ ان کا ادارہ ایرانی مرکزی بینک کے 25 اہلکاروں کے خلاف اپنی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں چند انتہائی سرکردہ عہدیدار بھی شامل ہیں۔
دو درجن سے زائد یہ تمام اہلکار ایرانی مرکزی بینک کے وہی عہدیدار تھے، جنہوں نے حکومت کے منظور شدہ ایرانی درآمد کنندگان کو زر مبادلہ کی صورت میں ایسی رقوم کی ادائیگی کی منظوری دی تھی۔
دوہری شرح تبادلہ
ماہرین کے مطابق ان واقعات کے خود ایرانی حکام کے مطابق بھی ناقابل فہم ہونے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایران میں زر مبادلہ کی شرح کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔ حکومت قومی بجٹ کے لیے تقریباﹰ چالیس فیصد تک مالی وسائل زر مبادلہ کی صورت میں ہونے والی اس آمدنی سے مہیا کرتی ہے، جو اکثر امریکی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ وہ اس آمدنی کو ملکی منڈی میں ڈالر سے ایرانی ریال میں تبدیل کراتی ہے اور یوں ریاستی ڈھانچے کو فعال رکھنے کے لیے وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔
ایران میں زر مبادلہ کی شرح دو طرح کی ہوتی ہے: ایک سرکاری جس کے لیے ریاست سبسڈی دیتی ہے اور جو بہت سستی ہوتی ہے۔ اس شرح کے مطابق ایک ڈالر تقریباﹰ بیالیس ہزار ریال کے برابر بنتا ہے۔ یہ سہولت صرف ایسے گنے چنے افراد یا اداروں کو ہی حاصل ہوتی ہے، جنہیں حکومت کی طرف سے ادویات اور خام صنعتی مال کی درآمد کی اجازت دی گئی ہوتی ہے۔
دوسری شرح تبادلہ کھلی منڈی میں غیر ملکی کرنسی کا وہ مقامی کاروبار ہے، جہاں عام لوگ مالیاتی لین دین کرتے ہیں اور جو بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اس اوپن مارکیٹ میں صارفین کو ایک امریکی ڈالر کے لیے تین گنا سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور ایک ڈالر تقریباﹰ ایک لاکھ پچپن ہزار ریال میں فروخت کیا جاتا ہے۔
'غائب ہو جانے والے‘ اربوں ڈالر کن کو دیے گئے؟
یہ بات اب تک واضح ہو چکی ہے کہ جن تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے غائب ہو جانے کا حکام دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ایسے درآمد کنندگان کو دیے گئے تھے، جنہیں کم قیمت پر زر مبادلہ فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ افراد ایران کے موجودہ سیاسی نظام کے مخلص حامی سمجھے جاتے ہیں اور ان کا شمار آپس میں بہت ہی مربوط کاروباری حلقوں میں ہوتا ہے۔
یہی وہ کاروباری افراد اور ادارے ہیں، جنہیں صدر حسن روحانی نے 'اہم کاروباری شخصیات‘ قرار دیا تھا۔ حکومتی حلقوں میں ان کے بہت اہم سمجھے جانے کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہی عناصر ایران کے امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچ نکلنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
شبنم فان ہائن (م م، ع ا)