ایران کا روس کے ساتھ جوہری توانائی کی پیداوار کا منصوبہ
21 مارچ 2023ایرانی وزیر اقتصادیات احسان خندوزی نے روس کے سرکاری خبر رساں ادارے 'آر آئی اے‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک توانائی کے شعبے میں روس کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
منگل 21 اپریل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایرانی وزیر اقتصادیات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے، ''نئی توانائی اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے ساتھ ساتھ پرامن ایٹمی توانائی سمیت توانائی کی دیگر اقسام کے میدان میں تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ یقیناً ان امکانات سے روس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت ملے گی۔‘‘
ایرانی وزیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب یہ دونوں ملک پہلے ہی ایران میں بوشہر جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر پر کام کر رہے ہیں۔
روس نے سن 2007 کے اواخر میں بوشہر کے لیے جوہری ایندھن کی فراہمی شروع کی تھی۔ تب امریکہ نے بھی اس اقدام کی حمایت ظاہر کی تھی۔ تب واشنگٹن اور ماسکو دونوں کا کہنا تھا کہ اس طرح ایران کو اپنے ''یورینیم افزودگی پروگرام‘‘ کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ایران اور روس کے مابین بڑھتی شراکت داری
حالیہ کچھ عرصے میں ایران اور روس کے مابین نہ صرف تجارت بلکہ دفاعی شعبے میں بھی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ پہلے واشنگٹن نے ماسکو اور تہران کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کے حوالے سے تنبیہ کی تھی۔ امریکہ نے روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایران کو ایئر ڈیفنس سسٹم سمیت جدید ترین فوجی سازو سامان فراہم کر رہا ہے۔
ایران بھی یوکرین میں 'جنگی جرائم میں ملوث'، امریکہ
دوسری طرف ایران پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ یوکرین جنگ کے لیے روس کو مقامی سطح پر تیار کردہ ڈرون فراہم کر رہا ہے۔ یہ ڈرون سستے ہیں اور انہیں ہدف تک پہنچنے سے روکنا یوکرینی فورسز کے لیے انتہائی مشکل کام ہے۔ تہران نے روس کو ڈرونز بھیجنے کا اعتراف کیا تھا تاہم اس کا کہنا تھا کہ یہ یوکرین پر ماسکو کی فوجی کارروائی سے قبل سپلائی کیے گئے تھے۔
وائٹ ہاوس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس ایران کو ''غیر معمولی سطح کی فوجی اور تکنیکی تعاون فراہم کر رہا ہے، جس سے دونوں کے باہمی تعلقات مکمل دفاعی شراکت داری میں تبدیل ہو چکے ہیں۔‘‘
دوسری طرف ماسکو بھی مغرب پر یوکرین کو ہتھیار سپلائی کرنے کے الزامات عائد کر چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار بالآخر یورپ ہی نہیں بلکہ افریقہ اور مشرق وسطی میں بھی ''غلط عناصر‘‘ کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔
ا ا/ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)