ایران کا عالمی جوہری معاہدے کی پاسداری سے انکار
6 جنوری 2020تاریخی عالمی جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے مسلسل اصرار کے باوجود ایران کے فیصلے نے عالمی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ یوروپی رہنما کشیدگی کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں لیکن ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مزید سخت اقدامات پرغور کر رہے ہیں۔
ایران کی سرکاری ٹی وی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اب ایران کا ایٹمی پروگرام اپنی ٹیکنالوجی کی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھتا رہے گا۔ اس بیان کے مطابق یورینیم افزودگی کی صلاحیت، مقدار، افزودہ کی گئی یورینیم کے ذخیرے، تحقیق اور پیداوار پر عائد حدود کی مزید پاسداری نہیں کی جائے گی۔
بیان میں تاہم کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی نگران ایجنسی، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا اور پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاہدے سے فائدہ اٹھانے کی صورت میں ایران ایٹمی سمجھوتے کے اپنے وعدوں کی جانب واپس لوٹنے کو تیار ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جرمنی سمیت چھ ممالک نے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لیے سن 2015 میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور تہران پر پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں، جس کی وجہ سے جوہری ڈیل کے ختم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایرانی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر امریکا موجودہ پابندیاں ختم کردے تو ایران اپنے فیصلے کو واپس لے سکتا ہے۔
جوہری معاہدے کے شرائط کیا ہیں؟
ایران اور سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک (امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس) بشمول جرمنی کے درمیان سن 2015 کے معاہدے کے تحت تہران اپنے خلاف عائد بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کرنے اور اربوں ڈالر کے منجمد ایرانی اثاثوں کو واپس کرنے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضامند ہوگیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو بہت معمولی پیمانے پر اپنی جوہری سرگرمیاں جاری رکھنے اور یورینیم کو صرف تحقیق اور طبی مقاصد کے استعمال کے لیے ذخیرہ کرنے کی اجازت تھی۔ معاہدے کے تحت صرف تین سے چار فیصد تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی اجازت تھی جب کہ وہ تین سوکلوگرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں کرسکتا۔ یہ مقدار اتنی کم ہے کہ اس سے جوہری ہتھیار تیار کرنا مشکل ہے۔ دراصل ایران کو صرف پرامن مقاصد کے لیے نیوکلیائی تحقیق کی اجازت دی گئی تھی۔
سن 2015 کے بعد سے ایسے متعدد مواقع آئے جب محسوس ہوا کہ ایران پابندیوں کی حدود کو ختم کرسکتا ہے۔ سن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے علیحدہ کر لیا جس کے بعد سے صورت حال مزید کشیدہ ہوتی چلی گئی۔
کشیدگی کم کرنے کی جرمنی، برطانیہ اور فرانس کی اپیل
گزشتہ جمعے کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیکایک امریکی ڈرون حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر افراد کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے۔
جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے ایران سے کسی بھی طرح کے پرتشدد اقدام سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے اور تہران سے کہا ہے کہ وہ سن 2015 کے نیوکلیائی معاہد کا احترام کرنے کے اپنے سابقہ فیصلے کا اعادہ کرے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی وارننگ
ادھر عراق سے غیر ملکی افواج کو باہر نکل جانے کے حوالے سے عراقی پارلیمنٹ میں منظور کردہ قرارداد کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے وارننگ دی ہے کہ اگر امریکی فوجیوں کو عراق سے نکلنے کے لیے کہا گیا تو بغداد پر ایسی سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی جس کا اس نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا عراقی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی قرارداد کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا انتظار کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت تقریبا پانچ ہزار امریکی فوجی عراقی فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے وہاں موجود ہیں۔
ج ا/ ع ب (اے پی، ریوٹرز، اے ایف پی)