1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے ساتھ معاہدے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، نیتن یاہو

ندیم گِل29 جنوری 2014

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود بنانے کے لیے بین الاقوامی عبوری معاہدے سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AyhH
تصویر: Reuters

بینجمن نیتن یاہو نے منگل کو تل ابیب میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں الزام عائد کیاکہ ایران عبوری معاہدے کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے وقفے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارا تجزیہ ہے کہ ایران جہاں پہلے کھڑا تھا، اس معاہدے نے اسے وہاں سے صرف چھ ہفتے پیچھے دھکیلا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا: ’’لہٰذا ایران کو جوہری استعداد سے باز رکھنے کے لیے اب مستقبل معاہدے کا امتحان باقی ہے، اگر وہ طے پاتا ہے تو۔‘‘

ایران نے رواں ماہ بین الاقوامی عبوری معاہدے کو نافذ کرنا شروع کیا ہے۔ امریکا سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران حکومت اپنے جوہری منصوبے کے بعض حصوں کو منجمد کرنے پر تیار ہے۔ اس کے بدلے میں اس کے خلاف پابندیاں نرم کی جائیں گی جس سے اسے سات بلین ڈالر کا فائدہ پہنچے گا۔ نتین یاہو نے اس معاہدے کو ’تاریخی غلطی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے ایران پر عائد پابندیوں پر نرمی کے اقدامات پر بھی تنقید کی تھی۔

IAEO-Hauptquartier in Wien, Österreich
عالمی طاقتیں شبہ ظاہر کرتی رہی ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہےتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مغربی ماہرین کی رائے نیتن یاہو کے تازہ اندازوں کے برعکس رہی ہے۔ گزشتہ برس جنیوا میں طے پانے والے معاہدے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اس کی شرائط کے سبب ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری بم حاصل کرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے۔

عبوری معاہدے کے تحت چھ ماہ کے عرصے میں اعتماد سازی کا عمل بھی چلایا جائے گا۔ امریکا اسرائیل کو یقین دہانی کروا چکا ہے کہ ایران کے ساتھ مستقل معاہدے کے لیے اس سے مشاورت کی جائے گی۔

اسرائیل خبردار کر چکا ہے کہ ضرورت پڑی تو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی ایرانی کوششوں کا راستہ روکنے کے لیے طاقت استعمال کی جائے گی۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی واحد جوہری طاقت ہے۔ تاہم اسرائیل نے کبھی اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے کے باوجود بعض امریکی ارکانِ کانگریس ایران کے خلاف مزید سخت کارروائیوں کے لیے زور دیتے رہے ہیں۔

عالمی طاقتیں اس شبے کا اظہار کرتی رہیں کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کی آڑ میں نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاہم تہران حکام کا مؤقف رہا ہے کہ ان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔