جوہری معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آ پہنچا
13 جنوری 2014چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مطابق اگر ایران اس معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرتا ہے تو اس پر عائد اقتصادی پابندیاں بتدریج نرم کی جائیں گی اور اس طرح اسے 4.2 ارب امریکی ڈالر کے برابر کا فائدہ ہو گا۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کے بقول ’’جوہری معاہدے کے پہلے مرحلے پر بیس جنوری سے عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔‘‘
عراقچی نے مزید بتایا کہ پہلے مرحلے کے دوران ایران اپنی یورینیئم کی افزودگی کی سطح کو کم کرے گا۔ اس کے بدلے میں تیل کی برآمد پر عائد پابندیاں نرم کر دی جائیں گی۔
عراقچی کے بیان کی برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے تصدیق کر دی ہے۔ ایشٹن کے بقول ایک مربوط اور مضبوط عمل درآمد کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا جوہری توانائی کا عالمی ادارہ اس جوہری معاہدےکی نگرانی کرے گا۔ آئی اے ای اے کے مطابق عالمی طاقتیں صرف تیل کی مصنوعات کی برآمد پر پابندی نرم نہیں کریں گی بلکہ اب کار ساز صنعت کو سامان درآمد کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔ ساتھ ہی ایرانی تاجر سونے اور دیگر قمیتی جواہرت کی تجارت بھی کر سکیں گے۔ امریکی اندازوں کے مطابق پابندیوں میں نرمی کی بدولت مجموعی طور پر سات ارب ڈالر کا فائدہ پہنچے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ طویل المدتی معاہدے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔ اوباما کے بقول معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ بیس جنوری سے ایران پہلی مرتبہ یورینیئم کے اپنے ذخائر میں کمی کرے گا اور اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے گا۔‘‘
امریکی سینیٹ میں اس معاہدےکے مخالفین ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنےکے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سینیٹ میں ایک متعلقہ بل پیش کیا گیا تھا اور 100 میں سے 59 سینیٹرز نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کے ترجمان جے کارنی کے بقول وائٹ ہاؤس ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس پیش رفت کو سراہا۔
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اس اتفاق رائے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ کئی برسوں کی محنت اور پیچیدہ مذاکراتی عمل کے بعد آخر کار کامیابی ہوئی ہے۔ پہلی مرتبہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے شفاف اور تفصیلی انداز میں ایک قابل عمل معاہدہ طے پایا ہے۔‘‘
ایران اور چھ عالمی طاقتوں، جن مں امریکا، برطانیہ، فرانس، ایران اور روس کے علاوہ جرمنی شامل ہیں، کے مابین گزشتہ برس نومبر میں جوہری معاہدہ طے پا گیا تھا۔ تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا۔