ایرانی اور اسرائیلی تنازعہ، سن 2020 کا ایک سنگین مسئلہ
2 جنوری 2020اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت بڑھی، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی اور ساتھ ہی ایران پر نئی سخت پابندیوں کا نفاذ کر دیا۔ دوسری طرف اس عالمی جوہری ڈیل کے یورپی دستخط کنندگان کوششوں کے باوجود ان امریکی پابندیوں کا توڑ نکالنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازعے کی شروعات سن 1980 کی دہائی میں ہوئی لیکن سن 2003 سے امریکا کی عراق میں فوج کشی کے بعد سے اس میں اضافہ ہوا۔ عراق سے امریکی فوج کا انخلا سن 2011 میں ہوا تاہم ابھی تک مشرق وسطیٰ میں ہم آہنگی اور اتفاق کا فقدان واضح طور دکھائی دیتا ہے۔
ایرانی و اسرائیلی تنازعے میں مزید خرابی کا امکان
ایران اور اسرائیل کے سفارتی و دفاعی حکام کے درمیان شدید بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے لیکن کسی جانب سے براہ راست جنگ کی بات نہیں کی گئی ہے۔ انہی بیانات کی وجہ سے کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کا خیال ہے کہ اس تنازعے کی سمت اب صرف یک رخی ہو کر رہ گئی ہے اور یہ شدید سے شدید تر ہوتا جائے گا۔ واعظ کے مطابق اس کا امکان ہے کہ غلط اندازے فریقین کو براہ راست ٹکراؤ کی جانب لے جائیں۔
ایرانی اثر و رسوخ میں اضافہ
حالیہ چند برسوں کے دوران ایرانی حکومت نے اپنے علاقائی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ عراق کے بعد شام کے صدر بشار الاسد کی کھلی حمایت نے بھی تہران اور دمشق کے تعلقات کو مضبوط کر رکھا ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں کو بھی مبینہ طور پر ایرانی حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ عراق میں دو ملیشیا گروپوں کو ایرانی حمایت فراہم کی گئی جبکہ بغداد حکومت کی دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ میں بھی ایران نے عراق کو مدد فراہم کی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران کے لبنانی عسکری و سیاسی تنظیم حزب اللہ کے ساتھ بھی گہرے تعلقات استوار ہیں۔ حزب اللہ کو لبنان کی سب سے طاقتور اور مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سیاسی جماعت نے اپنی صفوں میں عسکری تربیت یافتہ دستے شامل کر رکھے ہیں۔ ایسا تاثر ہے کہ حزب اللہ کا عسکری ونگ لبنان کی فوج سے زیادہ منظم اور مضبوط ہے۔
اس وقت تہران حکومت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔ خلیج کے یہ دونوں عرب ممالک اپنے دفاعی اخراجات میں ایک بڑا اضافہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ تاثر بھی ہے کہ اسرائیل ڈھکے چھپے انداز میں ایران مخالف خلیجی عرب ممالک کی حمایت کرتا ہے۔
اختلافی صورت حال
یورپی یونین کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی قدرے مختلف ہے۔ اسی طرح ایرانی جوہری ڈیل پر بھی یونین کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے منسلک صنم وکیل ایرانی امور کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جونہی ایران نے یورینیم افزودگی کی سطح بیس فیصد سے بڑھائی تو عالمی جوہری ڈیل مکمل طور پر اپنی موت مر جائے گی۔
یورپی یونین بہت سست روی سے امریکی موقف کے ساتھ نتھی ہے۔ دوسری جانب لبنان اور عراق میں حکومت مخالف پرتشدد مظاہرے بھی نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ عراق میں ایران مخالف مظاہرے ایک اور انداز کی پرتشدد تحریک خیال کی جاتی ہے۔ ان تحریکوں سے حکومتوں پر عوامی دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ اپنے امور کو اپنی اپنی عوام کے مزاج کے مطابق تبدیل کریں۔ صنم وکیل کا خیال ہے کہ ایران بھی ان مظاہروں کو نظرانداز نہیں کرے گا۔
ٹام ایلینسن (ع ح / ع ب)