ایرانی ایٹمی پروگرام: موساد اور نیتن یاہو کے ’متضاد دعوے‘
24 فروری 2015یہ بات جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی منگل 24 فروری کو ترکی کے شہر استنبول سے ملنے والی رپورٹوں میں بتائی گئی ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 2012ء میں اقوام متحدہ میں دعویٰ کیا تھا کہ تب ایران محض ایک سال کے اندر اندر ایٹم بم بنا سکتا تھا۔
لیکن برطانوی اخبار گارڈیئن اور عرب ٹیلی وژن ادارے الجزیرہ نے کل پیر کے روز سیکرٹ سروس کی جن خفیہ کیبلز کی تفصیلات کو شائع اور نشر کیا، ان کے مطابق تب اسرائیلی خفیہ سروس موساد نے بظاہر یہ دعوے کیے تھے کہ ایران اپنی جوہری تنصیبات میں اس پیمانے پر یورینیم کی افزودگی کر ہی نہیں رہا تھا جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔
برطانوی جریدے گارڈیئن اور قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد نے ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے ان دعووں سے جنوبی افریقہ کی اسٹیٹ سکیورٹی ایجنسی نامی انٹیلیجنس سروس کو بھی آگاہ کیا تھا۔ جو خفیہ کیبلز نیتن یاہو اور موساد کے ایرانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں مبینہ طور پر باہم متضاد دعووں کے منظر عام پر آنے کی وجہ بنیں، وہ جنوبی افریقہ کی اسی خفیہ ایجنسی سے حاصل کی گئی تھیں۔
اسرائیلی وزیر اع ظم نیتن یاہو مارچ کی تین تاریخ کو واشنگٹن میں امریکی کانگریس سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں خطاب بھی کرنے والے ہیں۔ انہیں اس خطاب کی دعوت ریپبلکن پارٹی کی قیادت کی طرف سے دی گئی تھی لیکن اس دعوت پر امریکی کانگریس کے کئی ڈیموکریٹ ارکان ’اپ سیٹ‘ ہیں۔
بینجمن نیتن یاہو کے امریکا کے اسی آئندہ دورے کے حوالے سے صدر باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ مارچ ہی میں ہونے والے اسرائیلی عام انتخابات سے اتنا تھوڑا عرصہ قبل نیتن یاہو سے نہیں ملیں گے۔
ایرانی ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ امریکا کی قیادت میں چھ عالمی طاقتیں تہران حکومت کے ساتھ کافی عرصے سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ایران کوئی ایٹمی ہتھیار نہ بنائے۔ ان چھ عالمی طاقتوں کو امید ہے کہ اس بارے میں تہران کے ساتھ معاہدہ سال رواں کی پہلی ششماہی میں طے پا جائے گا۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے ملکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جن خفیہ کیبلز کی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں، وہ ’نیتن یاہو کے عوامی بیانات کی نفی نہیں کرتیں‘۔ تاہم اسرائیلی حکام نے اپنے اس موقف کی کوئی وضاحت نہیں کی۔