ایرانی تنازعے کا پرامن حل بدستور ممکن ہے، اوباما
25 جنوری 2012اس کے ساتھ ہی باراک اوباما نے یہ بھی کہا کہ ایران کے حوالے سے وہ عسکری کارروائی کے ساتھ ساتھ ’کسی بھی حل‘ کو خارج از امکاں قرار نہیں دی گے، تاکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا: ’’اس بات میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے، امریکہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی کوششوں میں سنجیدہ ہیں، اور اس مقصد کے لیے میں کسی بات کو خارج ازامکان قرار نہیں دوں گا۔‘‘
امریکی صدر کا کہنا تھا: ’’لیکن اس مسئلے کا پرُ امن حل ابھی بھی ممکن ہے۔‘‘
اوباما نے امریکی کانگریس سے خطاب میں کہا کہ عالمی برادری اپنے تمام اختلافات مٹا چکی ہے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے متحد ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد ڈپلومیسی کی طاقت سے حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: ’’ایران پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہا پڑ گیا ہے، اس کے رہنماؤں کو تباہ کن پابندیوں کا سامنا ہے اور جب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے، یہ دباؤ کم نہیں ہوگا۔‘‘
امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کے تیل اور بینکاری کے شعبے پر پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں۔ ان کا مقصد ایران کو یورنیئم کی افزودگی کا عمل روکنے پر مجبور کرنا ہے۔ ان عالمی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ اس عمل سے ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
ایرانی حکام تازہ پابندیوں کے نتیجے میں اپنی تیل کی برآمدات بند ہونے کی صورت میں آبنائے ہرمز بند کرنے کے لیے خبردار کر چکے ہیں، جو تیل کی عالمی رسد کا اہم سمندری راستہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اوباما کے تازہ بیان سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ ایران کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کا راستہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ روس اور چین مغربی طاقتوں کی جانب سے ایران پر دباؤ کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق