ایرانی صدارتی الیکشن میں نوجوانوں کی دلچسپی انتہائی کم
14 جون 2021ایران میں رائے عامہ کے تازہ جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگ صدارتی الیکشن میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں میں سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں تسلسل کی وجہ سی مایوسی پائی جاتی ہے۔ نوجوان نسل سیاسی پابندیوں کی وجہ سے بھی پریشان ہے۔ حالیہ برسوں میں سخت امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھی ایرانی عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
عام انتخابات کے تین ماہ بعد نئی ایرانی پارلیمان کا اولین اجلاس
جمہوریت کی راہ تکتے نوجوان
تجزیہ کاروں کے مطابق ایران میں نوجوان نسل جمہوریت کی متمنی ہے اور اسی لیے وہ سیاسی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔ ایک نوجوان لڑکی شیرین (نام تبدیل کر دیا گیا) کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ نئی منتخب شدہ قیادت ملک میں جمہوری اور سماجی آزادیاں متعارف کرانے میں کامیاب ہو گی۔
شیرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی منتخب قیادت حکمران مذہبی اشرافیہ کے سامنے کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر رہے گی۔ عام تاثر یہ ہے کہ شیرین کی طرح ساری ایرانی نوجواں نسل مایوسی کا شکار ہے اور وہ سوشل میڈیا کی فوری آزادی کے حق میں ہے۔
ایرانی صدارتی الیکشن کا نتیجہ حیران کن ہو سکتا ہے
مذہبی افراد ووٹ ڈالنے جائیں گے
ایرانی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی مذہبی اقدار پر عمل کرتا ہے۔ ایسے شہری یقینی طور پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے انتخابی مراکز جائیں گے۔ ایسے شہریوں میں کم وسائل کے حامل سماجی گروپ بھی شامل ہیں۔ ایسے ووٹروں کا یقینی طور پر انتخاب سخت عقیدے کے حامل حلقوں اور مذہبی اشرافیہ کے پسندیدہ امیدوار ابراہیم رئیسی ہوں گے۔ رئیسی مغرب مخالف بھی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں میں ابراہیم رئیسی بقیہ امیدواروں پر سبقت رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شہروں، قصبات اور دیہات کے نوجوان شاید ہی ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں۔ نوجوان الیکشن کے دن گھروں میں رہنے کو فوقیت دے سکتے ہیں۔ حکومت کو بھی انتخابی شرکت کا تناسب کم رہنے کا خدشہ ہے۔
ایرانی صدر بے اختیار
شیرین نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ وہ آزادی اور جمہوریت چاہتی ہیں اور ملکی صدر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکیں۔ ایرانی دارالحکومت تہران کی رہائشی اور فرانسیسی ادب کی بائیس سالہ طالبہ نے اپنا اصلی نام مخفی رکھتے ہوئے مزید کہا کہ جب ایسا کچھ ممکن ہی نہیں، تو پھر ووٹ ڈالنے کا مقصد کیا ہے؟
مغرب کے ساتھ تعلقات کی پالیسی، نتیجہ کیا نکلے گا؟
ایران میں مذہبی حکومتی اشرافیہ کا ایک ایسا نظام قائم ہے، جس میں منتخب صدر کے اختیارات بہت محدود ہیں اور طاقت کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں، جو سن 1989 سے ایران کے سپریم لیڈر چلے آ رہے ہیں۔
اعتدال پسند امیدوار مسترد
اٹھارہ جون کے انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے والے تمام نمایاں اعتدال پسند امیدواروں کو انتخابی جانچ پڑتال کرنے والے ادارے نے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس ادارے میں سخت عقیدے کے حامل مذہبی علماء شامل ہیں۔ صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل تقریباﹰ سبھی امیدواروں کو قدامت پسند قرار دیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ایران کے شہروں میں رہنے والے لوگ زیادہ مسرت کا اظہار نہیں کر رہے۔
اعتدال پسند سیاست دان حسن روحانی سن 2013 میں صدارتی الیکشن جیت کر منصبِ صدارت پر فائز ہوئے تھے۔ ان کو خواتین اور نوجوانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ روحانی ملکی آئین کے مطابق تیسری مدتِ صدارت کے اہل نہیں ہیں۔
وہ بھی انتخابی مہم میں ایرانی عوام کی آزادی کی باتیں ضرور کرتے رہے لیکن مذہبی حکومتی اشرافیہ کے سامنے بے بس رہے۔ یہی سوچ زیادہ تر نوجوانوں میں ہے کہ روحانی کوئی بھی وعدہ پورا نہ کر سکے۔
ع ح / م م (روئٹرز)